
امریکہ اور افریقی ممالک دہشت گرد گروپوں کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط بنا رہے ہیں، سکیورٹی میں بہتری لانے کے لیے شراکت کاریوں کو مضبوط کر رہے ہیں اور ترقی کو وسعت دے رہے ہیں۔
چاڈ، گنی، ماریطانیہ، نائجیریا اور سینی گال سمیت افریقی ممالک 17 فروری سے لے کر 28 فروری تک ہونے والی “فلِنٹ لاک” نامی مشق کے لیے امریکہ اور اتحادی ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے۔ افریقی قیادت میں ہونے والی فلِنٹ لاک نے فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشق کو مربوط کیا جس سے 2005ء سے کلیدی شمالی اور مغربی افریقی افواج کے ساتھ ساتھ مغربی سپیشل آپریشن فورسز بھی مضبوط ہوئیں۔ اس سال کی مشق کی میزبانی ماریطانیہ اور سینی گال نے کی۔

محکمہ خارجہ میں مغربی افریقہ اور سلامتی کے امور کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری نے حال ہی میں امریکہ کے ایوان نمائندگان کو بتایا، “ہمارے افریقی شراکت دار اپنی مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنے کردار نبھا رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کی مدد سے ساحل کے ممالک کی طرف سے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی کمزوریوں اور سکیورٹی کی مشکلات سے نمٹنے میں زیادہ سے زیادہ قائدانہ کردار ادا کرنے سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔”
سیاسی اور فوجی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری، آر کلارک کوپر نے کہا کہ اِن مشقوں سے مغربی افریقہ کے ممالک کو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے اور سکیورٹی فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ افریقہ میں اچھی حکمرانی، سکیورٹی اور اقتصادی ترقی کے فروغ کے ساتھ طویل امریکی وابستگی کا حصہ ہیں۔

مثال کے طور پر امریکی حکومت کا خوشحال افریقہ پروگرام، امریکہ اور افریقی کاروباروں کے درمیان شراکت داریوں کو فروغ دے رہا ہے جس سے ملازمتیں پیدا ہورہی ہیں اور دونوں خطوں میں برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ برس کے اواخر میں امریکہ نے موزمبیق میں مائع گیس کا ایک پلانٹ تعمیر کرنے کے لیے 5 ارب ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا۔ دیگر ممالک میں اسی طرح کے پراجیکٹوں سے سینی گال میں بجلی تک اور روانڈا میں صاف پانی تک رسائی میں بہتری آئے گی۔
کوپر نے کہا کہ فلنٹ لاک افریقی ممالک کے ساتھ امریکی کی باہمی طور پر فائدہ مند اُن شراکتوں کو اجاگر کرتی ہیں جو بھاری بھرکم قرض کی طرف نہیں بلکہ خود انحصاری کی طرف لے جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا، “شراکت داری منزل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس کی ہم اُن دوستیوں کی قدر کرتے ہیں جو یہ بناتی ہے اور اُن اسباق کی قدر کرتے ہیں جو ہم سب شانہ بشانہ سیکھتے ہیں۔”