
امریکہ فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کو دی جانے والی تمام معاونت ختم کرتے ہوئے عالمی برادری سے کہہ رہا ہے کہ فلسطینیوں خصوصاً سکول جانے والے بچوں کی مدد کے نئے طریقے ڈھونڈے جائیں۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوآرٹ نے 31 اگست کو ایک بیان میں کہا، ”امریکہ ناقابل اصلاح حد تک بگڑی ہوئی اس کارروائی کے لیے اب مزید امداد کا وعدہ نہیں کرے گا۔”
ترجمان کا کہنا تھا، “ہم معصوم فلسطینیوں بالخصوص سکول جانے والے بچوں پر اس کے اثرات کی بابت بخوبی باخبر ہیں اور ہمیں اس پر گہری تشویش ہے۔”
”یہ بچے مشرق وسطی کے مستقبل کا حصہ ہیں۔ فلسطینی جہاں کہیں بھی رہتے ہوں وہ بحرانوں کے ردعمل میں فراہم کی جانے والی خدمات کے لا امتناعی طریقہ کار سے بڑھکر کہیں زیادہ بہتر طریقہ کار کے حق دار ہیں۔”
نوآرٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ اقوام متحدہ، مہاجرین کی میزبانی کرنے والی حکومتوں اور دوسرے فریقین سے امداد و معاونت کے نئے نمونوں اور طریقہائے کار سے متعلق بات چیت میں تیزی لائے گا۔ اِن طریقہائے کار میں ” امریکہ اور دوسرے شراکت داروں کی جانب سے براہ راست دوطرفہ معاونت بھی شامل ہو سکتی ہے۔”
امریکہ مشرق قریب میں فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ‘ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’ (یواین آر ڈبلیو اے) کو سب سے زیادہ امداد دیتا رہا ہے۔ یہ ادارہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں بے گھر ہونے والے مہاجرین کی مدد کے لیے 1949 میں قائم کیا گیا تھا۔
2017 میں امریکہ نے غزہ، مغربی کنارے، اردن، لبنان اور شام میں پچاس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے سکول چلانے، طبی سہولتوں کی فراہمی اور دیگر خدمات مہیا کرنے کے لیے یو این آر ڈبلیو اے کے کاموں کے لیے 35 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی امداد دی۔
54 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین میں سے بیشتر ان مہاجروں کی اولاد ہیں جو 1948 میں یا تو اپنے گھروں سے چلے گئے تھے یا بے گھر ہو گئے تھے۔
نوآرٹ نے اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے لوگوں کو ”لا امتناہی انداز اور بہت بڑی تعداد میں” مہاجرین کا درجہ دینے کے اقدام پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اس ادارے کو جس انداز سے چلایا جاتا رہا ہے اور جس طرح اسے مالی وسائل مہیا کیے جاتے رہے ہیں بلاشبہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔”
امریکہ نے جنوری میں یواین آر ڈبلیو اے کو آخری ادائیگی کی رقم میں نصف کٹوتی کر کے چھ کروڑ ڈالر ادا کر دیے تھے اور مطلع کیا تھا کہ وہ یہ غیرمتناسب بوجھ مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔
نوآرٹ نے اس سلسلے میں آگے آنے پر اردن، مصر، سویڈن، قطر اور متحدہ عرب امارات کی تعریف کی۔ ”تاہم اس معاملے میں مجموعی عالمی ردعمل ناکافی رہا۔”
امریکہ 1950 سے اب تک یواین آر ڈبلیو اے کو چھ ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے جبکہ فلسطینیوں کو1994 سے لے کر اب تک براہ راست امداد کی مد میں پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی جا چکی ہے۔
جنوری میں صدر ٹرمپ نے یہ جائزہ لینے کا حکم دیا تھا کہ آیا فلسطینیوں کے لیے امریکی امداد سے امریکی قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ ہوا ہے اور کیا اس سے امریکی ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچا ہے۔
دفتر خارجہ نے 24 اگست کو کانگریس کو مطلع کیا کہ وہ معاشی امداد کے فنڈ کے تحت دی جانے والی امداد میں 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی کٹوتی کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے 28 اگست کو ‘جمہوریتوں کے تحفظ کی فاؤنڈیشن’ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ مشرق وسطی کے دیگر ممالک یو این آر ڈبلیو اے کے لیے قلیل رقم مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “اگر یہ خطہ اِن شعبوں میں پیسے نہیں لگاتا تو ہمیں اِن شعبوں میں پیسے نہ دینے پر کیوں قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے اُن کو بھی اس میں پیسے لگانے پڑیں گے۔” ہیلی نے بتایا کہ امریکہ یو این آر ڈبلیو اے کو سب سے زیادہ مالی امداد فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ “ہم آپ کے شراکت دار ہوں گے مگر ایک ایسی شراکت داری کی بنیاد پر جس پر آپ یقین رکھتے ہوں۔ لہذا آپ ہمیں دکھائیں کہ آپ دل میں درد رکھتے ہیں اور پھر ہم واپس آئیں گے اور یہ فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔”
ہیلی نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ یواین آر ڈبلیو اے کے فنڈ جزوی طور پر ایسی نصابی کتب کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں امریکہ مخالف اور اسرائیل مخالف پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
امریکہ نے فلسطینی حکام کی جانب سے قیدیوں یا مبینہ طور پر دہشت گردی کے ارتکاب میں مارے جانے والوں کے اہلخانہ کو ادائیگیوں کے عمل کی مذمت کی ہے۔
یواین آر ڈبلیو اے، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے جسے پہلے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے نام سے جانا جاتا تھا علیحدہ اپنے طور پر کام کرتا ہے۔ ادارہ برائے مہاجرین 128 ممالک میں دو کروڑ دیگر مہاجرین کی مدد کے لیے سالانہ قریباً آٹھ ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ نے اس کام کے لیے 1.45 ارب ڈالر دیے ہیں جو دیگر ممالک سے تین گنا زیادہ ہیں۔