
امریکی حکومت افریقہ میں شدید بھوک اور غذائی قلت کے شکار ممالک میں خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر مالیت کی خوراک افریقہ کے ممالک میں پہنچا چکی ہے۔
یہ ہنگامی امداد صدر بائیڈن کی جون میں اعلان کردہ 2.76 ارب ڈالر کی اُس فنڈنگ کا حصہ ہے جس کا مقصد خوراک کے عالمی عدم تحفظ سے نمٹنا ہے۔ دنیا کے ممالک کو باقیماندہ فنڈ کی فراہمی اس سال کے آخر تک متوقع ہے۔
بالخصوص افریقہ میں خوراک کے بحران کی عالمگیر وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں، تنازعے اور کووڈ-19 سر فہرست ہیں۔ اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں 49 ملین افراد [پی ڈی ایف، 3.3 ایم بی] کو قحط یا قحط سے ملتے جلتے حالات کا سامنا ہے۔
فنڈز کی تقسیم میں امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) سرکردہ کردار ادا کر رہا ہے۔ یو ایس ایڈ کی منتظمہ، سمنتھا پاور نے 18 جولائی کو کہا کہ “ہمیں اس وقت خوراک کے ایک عالمگیر بحران کا سامنا ہے۔” انہوں نے کہا کہ عالمگیر تباہی سے بچنے میں مدد کرنے کے لیے امریکی حکومت اُن لوگوں کو امداد دے رہی ہے جنہیں سب سے زیادہ سنگین حالات کا سامنا ہے۔”
ذیل میں صدر کے منصوبے کے تحت یو ایس ایڈ کی خوراک کی سلامتی کی ہنگامی امداد حاصل کرنے والے چند ایک افریقی ممالک کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے انسانی بنیادوں پر اِن ممالک کو مذکورہ امداد کے علاوہ بھی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ایتھوپیا

یو ایس ایڈ کی طرف سے 488 ملین ڈالر کے فنڈ مہیا کیے جا رہے ہیں۔ اس رقم سے ہسپتالوں اور دیگر طبی اداروں میں موجود غذائیت کی کمی کے شکار 1.6 ملین بچوں سمیت پورے ایتھوپیا میں 4.8ملین افراد کی اشد ترین ضروریادت کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
پاور نے کہا کہ “ایسے میں کسی بچے کو غذائیت کی کمی کی وجہ سے نہیں مرنا چاہیے جب اس کو روکنے کے لیے ہمارے پاس وسائل موجود ہیں۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔”
مشرقی اور جنوبی ایتھوپیا میں رہنے والے لوگ خشک سالی کے مسلسل چار موسموں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 650,000 بچے اس لیے سکول نہیں جا پا رہے کیونکہ خشک سالی سے پیدا ہونے والی پانی کی کمی نے 2,000 سکولوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ایتھوپیا میں مسلح تصادم کی وجہ سے بھی خوراک تک رسائی محدود ہو کر رہ گئی ہے اور بہت سے لوگ خوراک، پناہ اور سلامتی کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کینیا

یو ایس ایڈ کا کہنا ہے کہ ایک ایسی خشک سالی نے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی 40 لاکھ سے زیادہ افراد کو فاقہ کشی کے منہ میں دھکیل دیا ہے جبکہ کینیا میں کسان اپنی 70 فیصد فصلوں سے محروم ہو گئے ہیں۔
جولائی میں امریکہ نے 235 ملین ڈالر فراہم کیے جس کے نتیجے میں یو ایس ایڈ کے شراکت کار کینیا میں 1.1 ملین سے زیادہ لوگوں کی فوری ضروریات کو پورا کر سکیں گے۔
کینیا کے لوگوں کو اُن علاقوں میں افریقہ میں سُرغو کی فصل، مٹر اور خوردنی تیل تک رسائی حاصل ہو گی جہاں مارکیٹوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ غذائی قلت کے شکار بچوں اور عورتوں کو اضافی غذائیت کی حامل اشیاء فراہم کی جائیں گیں۔
سمنتھا پاور نے 25 جولائی کو کینیا اور صومالیہ کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ “قرن افریقہ میں غذائی تحفظ کا بحران تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔”
صومالیہ
یو ایس ایڈ کی 461 ملین ڈالر سے زائد امداد سے صومالیہ میں ان لوگوں کی مدد کی جائے گی جو ملک کی تاریخ کی بدترین خشک سالی سے دو چار ہیں اور جن کے سروں پر قحط کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
خشک سالی سے کم و بیش 7 ملین صومالی متاثر ہوئے ہیں جن میں شدید غذائی قلت کا سامنا کرنے والے 1.4 ملین بچے بھی شامل ہیں۔
اِس امداد سے فوری طور پر خوراک فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ غذائی کمی کے شکار بچوں کے لیے زندگی بچانے والی غذائیت، پینے کا صاف پانی اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جائیں گیں۔ اس کے علاوہ یہ امداد مقامی کسانوں کی آلات اور بیج خریدنے میں مدد کرنے کے لیے بھی استعمال کی جائے گی۔
جنوبی سوڈان

تنازعات، شدید خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں جنوبی سوڈان میں خوراک کی قلت کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
مئی میں وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے خوراک کے عدم تحفظ اور تنازعات پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران کہا کہ جنوبی سوڈان میں مسلح گروہ اور متحارب فریق شہریوں تک انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس برس ملک میں 7 ملین افراد کو بحرانی سطح کے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا کرنے کا احتمال ہے۔
4 اگست کو یو ایس ایڈ نے جنوبی سوڈان کے لیے اناج کی شکل میں 106 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔
ہنگامی بنیادوں پر خوراک کی امداد جن دیگر ممالک کو دی گئی ہے اُن میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو اور موزمبیق شامل ہیں۔ اِن ممالک کو امریکہ کے “فیڈ دا فیوچر عالمی پروگرام” میں حال ہی میں اہدافی ممالک کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یوگنڈا کو بھی مذکورہ پروگرام کے تحت اہدافی ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں امریکی حکومت پڑوسی ممالک سے بے گھر ہو کر آنے والے پناہ گزینوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
بلنکن نے جون میں برلن میں ہونے والی “خوراک کے عالمگیر تحفظ کے لیے متحد ہونے” کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں کہا کہ “ہم [انسانوں] کے مصائب دیکھ رہے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس کے بارے میں ہم کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔”