امریکہ کی سیاست میں امریکی مسلمانوں کی شرکت بڑھتی جارہی ہے

امریکہ میں ایک ایسی کوشش کی جارہی ہے جس کا مقصد امریکہ کے سیاسی عمل میں مزید مسلمانوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

آئیے چند ایک ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو اس مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔

صبا احمد ایک پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہیں جنہوں نے امریکہ کی سیاست میں قدامت پسند مسلمانوں کی آواز کو شامل کرنے کے لیے ری پبلکن مسلم اتحاد  قائم کیا ہے۔

صبا، جن کے پاس — امریکہ کی چوٹی کی یونیورسٹیوں سے قانون، بزنس اور الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگریاں ہیں — کہتی ہیں کہ اُن کے دل میں بزنس، قانون اور ذرائع ابلاغ کے قدامت پسند ری پبلکن حلقوں میں اسلام کا دفاع کرنے کا جذبہ موجود ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’میں اپنی مسجد اور ری پبلکن سیاست میں، دونوں جگہ ایک امریکی کی حیثیت سے اپنے حقوق اور اپنی آزادیوں کو بروئے کار لاتی ہوں ـــ اور امید کرتی ہوں کہ دوسرے قدامت پسند مسلمان بھی میرے ساتھ شامل ہوں گے، اور شہری سرگرمیوں میں شرکت کے ذریعے ہماری آواز کو سنا جائے گا۔‘‘

ٹیکسس سے تعلق رکھنے والی ایک امریکی مسلمان، ثروت حسین ملک بھر میں مسلمانوں کو مزید سیاسی نمائندگی  فراہم کرنے کے مقصد سے ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں۔

ثروت کا کہنا ہے، ’’سیاست میں شامل ہونا، اسلام میں ایک طرح کی عبادت کی ہے۔ آپ جس سر زمین پر رہتے ہیں، لازم ہے کہ آپ اس کی ہر سطح پر اور ہر پہلو سے خدمت کریں۔‘‘

انہوں نے امریکن مسلم ڈیموکریٹک کاکس قائم کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ ایک سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد سیاسی عہدے رکھنے والے امریکی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

Sarwat Husain (left, in green jacket) at the AMDC Luncheon at the Pennsylvania Convention Center during the Democratic National Convention.
ثروت حسین (بائیں جانب سبز کوٹ میں )2016 کے ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن کے دوران پنسلو نیا کنونشن سینٹر میں امریکن مسلم ڈیمو کریٹک کاکس کے ظہر انے کی تقریب میں (VOA/K. Farabaugh)

کیا امریکی مسلمان ووٹ دیں گے؟

مسلمان امریکیوں کی سیاست میں مزید شرکت کی راہ میں ایک رکاوٹ، انہیں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کا چیلنج ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں بچے، بڑے، کل ملا کر  33 لاکھ مسلمان  رہتے ہیں۔ لیکن بہت سے ووٹ دینے کے اہل مسلمان امریکی، ووٹ دینے نہیں جاتے۔

طاہر علی  کیلی فورنیا میں قائم ایک تنظیم  امریکی مسلم اتحاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ تنظیم سول معاشرے کی سرگرمیوں میں مسلمانوں کی شرکت کو فروغ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹنگ میں کم  مسلمانوں کے حصہ لینے میں ’’ امریکی حکومت کا کوئی قصور نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ دوسرے ملکوں میں ان کا ووٹ ڈالنے کا تجربہ ہو، جس کے باعث امریکہ میں اس قدر کم مسلمان ووٹ ڈالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ’’ جہاں سے آئے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہاں یہ عمل صاف ستھرا  نہ ہو، ممکن ہے کہ وہاں بدعنوانی ہو۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا پڑے گا کہ [ امریکہ میں ] یہ عمل نہایت صاف ستھرا ہے۔‘‘

ایسے وقت میں جب تارکین وطن ا یک نئے ملک میں اچھی طرح رچ بس جانے میں مصروف ہیں، ان کے بہت سے بچے ووٹ ڈالنا شروع کر رہے ہیں۔ ان میں نعمان خانانی  جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔

خانانی کہتے ہیں، ’’اب آپ دوسری نسل کے نسبتاً زیادہ مسلمانوں کو تھوڑا بہت شریک ہوتا ہوا دیکھ  رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے بہت سے میری عمر کے ہیں — یہی کوئی 20، 25 سال کی عمر کے۔ مگر ان کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اگلے پانچ سے 10 سالوں کے عرصے میں آپ کو زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوتے ہوئے دکھائی دیں گے۔‘‘

 (اس مضمون میں شئیر امریکہ سے مدد لی گئی۔)