
کسی بھی بارہ پندرہ سال کی عمر کے طالبعلم کے لیے ثانوی سکولوں کی روبوٹ کی چمپین شپ میں پہنچ جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
“ہوپ آف سیریا” [شام کی امید] نامی ٹیم کے لیے یہ ایک غیرمعمولی کارنامہ ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لبنان کی بقاع وادی میں واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں ڈیزائن کیا گیا انعام جیتنے والا یہ روبوٹ طالب علموں، ماہر العیساوی، عمار نصر کپور، روان الجوہری، آمنہ لباد اور تہانی ارنوط نے تیار کیا۔ اِن پانچ طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موجودہ حالات کے باوجود ڈاکٹر، وکیل اور انجینیئر بننے کے اپنے اپنے خواب پورے کرنے کا عزم مصممم کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی محنت کی وجہ سے اور اپنی کامیابیوں سے ججوں کو سب سے زیادہ متاثر کر کے “انسپائر ایوارڈ” جیتا۔ انہوں نے اپنا روبوٹ امریکہ میں سال 2018 کے لیے ہونے والے “ویکس روبوٹکس” کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کیا تھا۔

ان طالب علموں نے شامی نژاد امریکیوں کی میڈیکل سوسائٹی کی مالی مدد اور لبنان میں تین ہزار شامی پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے والے ‘ملٹی ایڈ پروگرامز’ نامی ادارے کے تعاون سے امریکہ میں دو ہفتے قیام کیا۔ اس دوران وہ امریکہ کے ثانوی سکولوں کی روبوٹ بنانے والی ٹیموں سے ملنے گئے۔
واشنگٹن میں اپنے قیام کے دوران ہوپ آف سیریا ٹیم کے اراکین نے ووڈرو ولسن ہائی سکول کی ‘ٹائگر پرائڈ’ نامی ٹیم کے اراکین سے ملاقات کی۔ دونوں ٹیموں کے رکن طالب علموں نے بکسے اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چیزیں لے جانے والے ٹائگر پرائڈ کے روبوٹ کے اندرنی نظام کا مطالعہ کیا۔