امریکی حکومت چین کے شنجیانگ کے علاقے میں جبری مشقت کے کیمپوں سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ “تعلیم نو” کے کیمپوں، جبری نس بندیوں، اور مذہبی مقامات کی تباہی کو استعمال کرتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی اس علاقے میں لاکھوں ویغوروں اور دیگر زیادہ تر مسلمان نسلی اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے۔
امریکہ جبری مشقت سے تیار کیے جانے والے سامان کی درآمد کو روک رہا ہے۔ یہ کام زیادتیوں کی ذمہ دار چینی کمپنیوں اور سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں لگا کر، اور شنجیانگ میں واقع کمپنیوں کے ساتھ شراکت کاری کرنے والی امریکی کمپنیوں کو تنبیہ کر کے کیا جا رہا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ چینی کمپنیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوئی ہوں۔
جولائی مین امریکہ کے کسٹمز اور سرحدی تحفظ کے افسروں نے شنجیانگ سے آنے والی بالوں سے تیار کردہ 13 ٹن مصنوعات کو اپنے قبضے میں لیا۔ اِن کے بارے میں شک ہے کہ انہیں زیرحراست مزدوروں کے بالوں کو زبردستی کاٹ کر تیار کیا گیا ہے۔ مذکورہ مصنوعات کی برآمدگی کے بعد اس محکمے نے ایک ایسی کمپنی کی تمام درآمدات کو روک دیا ہے جس پر شنجیانگ میں جبری مشقت کے استعمال کا شبہ ہے۔

سی بی پی کے تجارت کے دفتر کی ایگزیکٹو اسسٹنٹ کمشنر، برینڈا سمتھ نے کہا، “اِن مصنوعات کی تیاری انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے۔”
2017ء سے چینی کمیونسٹ پارٹی دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شنجیانگ میں قائم حراستی کیمپوں میں قید کر چکی ہے۔ ویغور ثقافت، مذہب، اور زبان کا نام و نشان مٹانے کی کاروائیوں میں مساجد کی تباہیاں یا اُن میں تبدیلیاں، جبری شادیاں، اقلیت سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی اجتماعی نس بندیاں اور جبری مشقتیں شامل ہیں۔
جبری مشقت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی غرض سے امریکہ کے محکمہ خزانہ نے 31 جولائی کو “شنجیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کارپوریشن” (ایکس پی سی سی) نامی کمپنی پر شنجیانگ میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندیاں لگائیں۔

رسدی سلسلے کے ایک تجزیہ کار کے مطابق، ایکس پی سی سی ایک نیم فوجی تنظیم ہے جو کمیونسٹ پارٹی کو جوابدہ ہے۔ شنجیانگ کی 20 فیصد اقتصادی سرگرمیوں پر اسے کنٹرول حاصل ہے اور یہ 800,000 سے زائد ذیلی کمپنیاں چلاتی ہے۔
اِن پابندیوں کے تحت ایکس پی سی سی اور اس کی ذیلی کمپنیوں کے اثآثے منجمد کر دیئے گئے ہیں اور اس کمپنی کی امریکی معاشی نظام تک رسائی کو اور اس کے امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنے کو روک دیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ سٹیون ٹی منوچن نے 31 جولائی کے ایک بیان میں کہا، “امریکہ شنجیانگ اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کو پامال کرنے والوں کا احتساب کرنے کے لیے اپنے مالیاتی اختیارات کو مکمل طور پر استعمال کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔”
یہ اقدام 9 جولائی کو شنجیانگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری، چن کوانگو پر پابندیاں لگانے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ حراستی کیمپ چن کی زیرنگرانی چلائے جاتے ہیں۔ ایکس پی سی سی کی نگرانی بھی چن ہی کے پاس ہے۔
جبری مشقت والے ترسیلی سلسلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے امریکہ، اُن تجارتی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے جو چین میں موجود کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرتی ہیں۔ امریکی حکومت کے اداروں نے یکم جولائی کو ‘شنجیانگ ترسیلی سلسلے سے متعلق ایک مشاورتی مراسلہ’ جاری کیا جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث چینی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کرنے سے جڑے قانونی، اقتصادی، اور نیک نامی کے حوالے سے خطرات کے بارے میں تنبیہہ کی گئی ہے۔
اس موقع پر امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “کوئی شخص بھی وہ مصنوعات، سستی مصنوعات نہیں خریدنا چاہتا جو مغربی چین میں غلامانہ مشقت کے تحت تیار کروائی گئی ہوں۔