حفاظتی خود پہنے ایک عورت گولڈن گیٹ پل کے زیرتعمیر ستون کے سامنے دو مردوں سے باتیں کر رہی ہے (© AP)
امریکی تاریخ میں وزیر کے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون رکن، وزیر محنت فرانسس پرکنز [درمیان میں] 1935 میں سان فراسسکو کے گولڈن گیٹ پل کے ٹاور میں ایک ورکر سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© AP)

جب اُس وقت کے صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے فرانسس پرکنز کو اپنی کابینہ میں وزیر محنت مقرر کیا تو وہ امریکی صدر کی انتظامیہ میں کابینہ کا عہدے پر فائز ہونے والیں پہلی خاتون بن گئیں۔ انہیں اب تک وزیر محنت کے طور پر طویل ترین مدت تک خدمات انجام دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تب یعنی 1933 میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ملے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوا تھا اور وہ امریکی سیاست میں اپنے پاؤں جما رہی تھیں۔ اُس وقت امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں خواتین اراکین کی تعداد31 تھی۔

اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے پرکنز نے “نیو ڈیل” [نیا معاہدہ] تیار کرنے میں فرینکلن روزویلٹ کی مدد کی۔ اس معاہدے کا محور محنت کش تھے۔  پرکنز نے نیو ڈیل کے پروگراموں میں [مزدور] یونینوں کے تحفظ، کسانوں کی امداد اور بوڑھے لوگوں کی روزی روٹی کی سکیورٹی کو شامل کرایا۔ اُن کے اپنے الفاظ میں ” اُن پر غربت کے مسائل، دنیا کے دکھوں، نظرانداز کیے جانے والے افراد، [اور]  نظر انداز کیے جانے والے گروپوں نے گہرا اثر ڈالا۔”

پرکنز کے بعد مزید چھ خواتین نے وزیر محنت کے طور پر خدمات انجاد دیں۔ حال ہی میں صدر بائیڈن نے ساتویں خاتون، جولی سُو کو وزیر محنت نامزد کیا ہے۔ اس وقت وہ نائب وزیر ہیں۔ (بائیڈن کی کابینہ میں نصف سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔)

خدمت خلق میں گزری زندگی

ہیٹ پہنے کرسی پر بیٹھی ایک عورت (© Bettmann/Getty Images)
وزیر محنت پرکنز کی 1940 کی ایک تصویر (© Bettmann/Getty Images)

پرکنز 1880 میں بوسٹن میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ جب وہ بچی تھیں تو اُن کے والد فریڈرک پرکنز اپنے خاندان کے ہمراہ ورسسٹر، میساچوسٹس چلے آئے جہاں مشترکہ مالک کی حیثیت سے وہ سٹیشنری کا سٹور چلانے لگے۔

پرکنز ذہین طالبہ تھیں اور انہوں نے سکول میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنی آبائی ریاست یعنی میساچوسٹس میں خواتین کے لیے مخصوص ماؤنٹ ہولیوک کالج میں داخلہ لیا۔ اب اِن کے نام سے منسوب فرانسس پرکنز سکالرشپ کے تحت ایسی خواتین کی مدد کی جاتی ہے جو یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کرنے والیں عام طالبات کے مقابلے میں زیادہ عمر کی ہوتی ہیں۔

ماؤنٹ ہولیوک سے گریجوایشن کرنے کے بعد پرکنز نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات اور سماجیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

جب 1911 میں ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ سے 146 کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں تو اس کے نتیجے میں پرکنز نے کام کی جگہوں کو محفوظ بنانے میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور صارفین کی تنظیم ‘کنزیومر لیگ’ کی قیادت سنبھال لی۔

پرکنز نے سابقہ امریکی صدر اور ریاست نیویارک کے گورنر تھیوڈور روزویلٹ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے 1912 میں نیویارک سٹی کی حفاظتی اقدامات سے متعلق کمیٹی کی ایگزیکٹو سیکرٹری کا عہدہ قبول کیا۔ وہاں پر انہوں نے نیویارک کے اُس قانون کا مسودہ تیار کرنے اور اُسے منطور کرانے میں ایک سرگرم  کردار ادا کیا جس کے تحت مزدوروں کے لیے فیکٹریوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا گیا، کم از کم اجرتیں مقرر کی گئیں اور ہفتے میں کام کے گھنٹوں کی تعداد کو محدود کیا گیا۔

اس قانون کی منظوری کے کئی برسوں بعد پرکنز نے کہا کہ اِس قانون کی منظوری معاشرے کے ذمے اُن نوجوانوں کا قرض چکانے کا ایک طریقہ تھا جو ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری کی آتشزدگی میں ہلاک ہوئے تھے۔

ایف ڈی آر کے ساتھ کام کرنا

جب فرینکلن روزویلٹ صدر بنے تو انہوں نے پرکنز کے نیویارک کے کام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں امریکہ کی وزیر محنت نامزد کیا۔

صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ میز پر رکھے کاغذ پر دستخط کر رہے ہیں اور تین افراد اُن کے پیچھے کھڑے ہیں (© AP)
صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ بیروزگاروں کی تلاشِ روزگار میں مدد کرنے کا نظام وضح کرنے کے قانون پر دستخط کر رہے ہیں اور [بائیں سے دائیں کھڑے] نیویارک سے ایوان نمائندگان کے رکن، تھیوڈور اے پیسر، وزیر محنت، فرانسس پرکنز اور نیویارک کے سینیٹر رابرٹ ویگنر کھڑے ہیں۔ (© AP)

فرینکلن روزویلٹ نے عظیم کساد بازاری سے نکلنے میں امریکیوں کی مدد کرنے والے پروگراموں اور قوانین پر مشتمل اپنے نیو ڈیل کے حوالے سے پرکنز کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور محنت کشوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی ذمہ داریاں سونپیں۔

اور پرکنز نے یہ ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ وہ سوشل سکیورٹی [سماجی بھلائی کے نظام] اور محنت کشوں کے اُن منصفانہ قوانین کی کلیدی معمار تھیں جن  کے تحت بیروزگاری کی صورت میں ملنے والیں مراعات کے معیار طے کیے گئے، بچوں سے کرائی جانے والی مشقت پر پابندی لگائی گئی، پہلی مرتبہ قومی سطح پر کم از کم اجرتیں مقرر ہوئیں، اور غریبوں کے لیے فلاحی پروگرام مرتب کیے گئے اور ریٹائر ملازمین کے لیے پنشنیں مقرر کیں گئیں۔

ایک عورت سلائی مشین پر کام کر رہی ہے اور فر کا کوٹ پہنے ایک عورت اور تین مرد اُسے دیکھ رہے ہیں (© AP)
پرکنز [دائیں طرف] 1933 میں اٹلانٹا میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری کا دورہ کر رہی ہیں۔ (© AP)

1945 میں فرینکلن روزویلٹ کے انتقال کے بعد پرکنز نے وزارت محنت میں اپنا عہدہ چھوڑ دیا اور سول سروس کمیشن میں وفاقی بھرتیوں میں امتیازی سلوک کے خاتمے کا کام سنبھال لیا۔

پرکنز نے اپنے مشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “حکومت کے نزدیک جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاسل ہے وہ عوام ہیں اور ہر حکومت کا مقصد  اپنی عملداری میں رہنے والے تمام لوگوں کو جہاں تک ممکن ہو سکے زندگی کی بہترین [سہولتوں] کی فراہمی ہونا چاہیے۔”