امریکی ملک الشعراء کے علاوہ، امریکہ نوجوان ملکہائے الشعراء کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ وہ بڑی ہو کر شاعرہ بن سکیں۔
‘ لٹریری فاؤنڈیشن اربن ورڈ’ نامی ادارے نے 2017 میں پہلی قومی نوجوان ملکہ الشعراء کے نام کا اعلان کیا۔ اس فاؤنڈیشن کو [امریکی] صدر کی فنون اور بشریات کی کمیٹی، لائبریری آف کانگریس اور امریکی شعراء کی اکیڈمی کی تائید حاصل ہے۔
دنیا پہلی نوجوان ملکہ الشعراء، امینڈا گورمن سے اس وقت واقف ہوئی جب انہوں نے صدر بائیڈن کی 2021 کی حلف وفاداری کی تقریب کے موقع پر اپنی نظم “دی ہل وی کلائمب” پڑھی۔
گورمن نے بتایا کہ پڑھنے سے پہلے کس طرح اُن کے اعصاب جواب دے گئے تھے۔ مگر انہوں نے اپنی اندرونی طاقت کو مجتمع کرکے ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک بہت بڑے مجمعے کے سامنے کھڑا ہو کر پڑھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز میں لکھا، ” کیپیٹل [افتتاحی تقریب] کی طرف جاتے ہوئے راستے میں میں نے وہ منترا دہرایا جو میں کسی بھی [مشاعرے] میں پڑھنے سے پہلے دہراتی ہوں یعنی میں سیاہ فام مصنفین کی بیٹی ہوں۔ ہم آزادی کے اُن جنگجوؤں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زنجیریں توڑیں، اور انہوں نے دنیا کو بدل دیا۔ وہ مجھے پکار رہے ہیں۔”
لاس اینجلیس کی رہنے والی گورمن نے شاعری کی اپنی پہلی کتاب 2015 میں 17 برس کی عمر میں شائع کی۔ انہوں نے ہارورڈ میں سوشیالوجی کی تعلیم حاصل کی اور 2020 میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجویشن کیا۔

گورمن کو 2017 میں نوجوان ملکہ الشعراء نامزد کیا گیا تھا۔ ان کے بعد مزید چار شاعرہ یہ اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
شکاگو کی پیٹریشیا فریزیئر 2018 میں 19 سال کی عمر میں دوسری ملکہ الشعراء بنیں۔ اوک پارک، ایلا نوائے سے تعلق رکھنے والی نغمہ نگار، موسیقار اور مصنفہ کارا جیکسن کو 2019 میں تیسری اور نیویارک سٹی کی میرا داس گپتا کو 2020 میں چوتھی ملکہ الشعراء کا اعزاز حاصل ہوا۔
2021 کی نوجوان ملکہ الشعراء، الیگزینڈرا وِن ویت نامی نژاد امریکی ہیں اور وہ کیلی فورنیا میں پلی بڑھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ دنیا کے نوجوان اپنی زندگی کے تجربات کو فصاحت سے بیان کریں۔
وِن کی ” لائف سائیکل آف اے کیٹ کال” کے عنوان سے تحریر کردہ نظم میں دنیا بھر کی عورتوں کو سرِ راہ ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنے کی پریشانی اور دکھ کے تجربے کو متاثرہ عورتوں کی نظر سے بیان کیا گیا ہے۔
وِن نوجوانوں کو اپنا سچ بولنے اور آرٹ کے ذریعے اظہار خیال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
انہوں نے دا لِلی نامی اخبار کو بتایا، “اگر ایسے لوگ ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ [معاشرے میں] ایسے شعبے ہیں جہاں اُن کی نمائندگی کم ہے اور یہ [شعبے] اُن کے نزدیک اہم ہیں تو وہ یہ جان لیں کہ ایک وقت آئے گا جب صورت حال ایسی نہیں رہے گی [اور] ہمیں گوناگوں تجربات اور متنوع آوازیں سننے کو ملیں گیں۔ آپ اس تبدیلی کی ابتدا اپنی کہانی دوسروں کو سنا کر کر سکتے ہیں۔”