امریکہ کی “وائسز آف شنجیانگ” کی حمایت

سر پر دوپٹہ لیے ایک عورت مائکروفون کے ذریعے بات کر رہی ہے۔ (© Chip Somodevilla/Getty Images)
گلچہرہ ہوجہ جن کے رشتے دار شنجیانگ میں قید ہیں، 16 مئی 2019 کو واشنگٹن میں انسانی حقوق سے متعلق کانگریس کے ایک پینل کی سماعت کے دوران۔ (© Chip Somodevilla/Getty Images)

عدالت  سابت کی بیٹی اپنے والد سے کبھی نہیں ملی۔ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی حکومت نے ان کے شوہر کا پاسپورٹ ضبط کرلیا اور اسے شنجیانگ سے باہر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ویغر شنجیانگ میں ایسی حالت میں رہ رہے ہیں جہاں ان پر مستقل نظر رکھی جاتی ہے۔

سابت بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کو ان کی ویڈیو کالیں موصول کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا جاتا ہے اور انہیں علم نہیں کہ وہ جو ویڈیوز بھیجتی ہیں وہ اُن کے شوہر تک پہنچ پاتی ہیں یا نہیں۔ سابت تنہا امریکہ میں اپنی بیٹی کی  پرورش کر رہی ہیں۔ سابت اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اپنی ثقافت کو جتنا زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں اتنا کر رہی ہیں اور وہ اسے وہ گانے سکھاتی ہیں جو انہوں نے روائتی ویغر رقاصہ کی حیثیت سے سیکھے تھے۔

سابت نے محکمہ خارجہ کے “وائسز آف شنجیانگ” (شنجیانگ کی صدائیں) نامی پراجیکٹ کو بتایا، “میں اسے مرحلہ بہ مرحلہ  اپنی زبان سکھا رہی ہوں۔ میں اسے ویغر گانے اور رقص دکھاتی ہوں۔”جون میں وائسز آف شنجیانگ نے اُن سات ویغروں کی کہانیوں کو اجاگر کیا جن کے رشتے دار پی آر سی کی جابرانہ پالیسیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

گلچہرہ ہوجہ کو اپنے اُن 24 رشتہ داروں کے بارے میں کوئی خبر نہیں جنہیں شنجیانگ میں حکام نے 31 جنوری 2018 کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا تھا۔ “[چینی کمیونسٹ پارٹی] ہماری ثقافت، ہماری زبان، ہمارے طرز زندگی کا نام و نشان مٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔” ہوجہ نے 2001ء میں امریکہ میں بطور صحافی کام کرنے کے لیے شنجیانگ خیرباد کہا تھا۔ انہوں نے وائسز آف شنجیانگ کو بتایا، “ویغر ہونے کے ناطے اِن کو زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔”

2017ء سے لے کر آج تک پی آر سی شنجیانگ میں دس لاکھ سے زائد ویغروں، جن کی اکثریت مسلمان ہے، اور دیگر نسلی اور مذہبی گروپوں کے افراد کو قید کر چکی ہے۔ اِن میں سے بہت سوں سے جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔ بعض کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتٰی کہ کیمپوں سے باہر بھی ویغرمستقل نگرانی تلے زندگیاں گزار رہے ہیں اور وہ شنجیانگ سے باہر رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔

امریکہ نے ویغروں اور دیگر کے حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار،  پی آر سی کے عہدیداروں  پر پابندیاں لگائیں ہیں۔ امریکی حکومت ایسی اشیاء کے امریکہ داخلے کو بھی روکتی ہے جن کے بارے میں یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہات موجود ہوتی ہیں کہ انہیں شنجیانگ میں جبری مشقت کے تحت تیار کروایا گیا ہے۔ اس کا مقصد جبری مشقت کو روکنا ہے۔

6 جولائی کو وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے پی آر سی کے حراستی کیمپوں سے بچ نکلنے والوں سے ملاقاتیں کیں اور پی آر سی کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔

ملاقاتوں کے بعد بلنکن نے کہا، “امریکہ یکجہتی کے طور پر اُن افراد کے ساتھ کھڑا ہے جنہوں نے شنجیانگ میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے مظالم جھیلے ہیں۔ ہم ہمیشہ انصاف کی خاطر اُن کے اور اُن کے خاندانوں کے لیے جہد کریں گے۔”

ثوبی مہمت یکسل نے وائسز آف شنجیانگ کو بتایا کہ وہ اکثر حیران ہوکر سوچتی ہیں کہ اُن کے والد، مہمت عبداللہ کو کیوں گرفتار کیا گیا۔ اُن کے 73 سالہ والد ایک سابقہ سرکاری کارکن ہیں۔ اُن پر “علیحدگی پسندی” اور “اختیار کے غلط استعمال” کے الزامات لگائے گئے تھے۔ تاہم یکسل کو بعد میں علم ہوا کہ اُن کے والد کو “ایک باعزت ویغر مرد” ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

یکسل نے کہا، “میرے والد جیسے لوگ بغیر کسی وجہ کے برسوں سے قید میں ہیں۔ محض اس لیے کہ وہ کون ہیں، محض اس لیے کہ وہ ویغر ہیں۔ کسی ایک انسان کو بھی منصفانہ اور شفاف مقدمے کے بغیر قید میں نہیں ہونا چاہیے۔”

 عمارت کے سامنے چار آدمیوں کی تصویر (Courtesy of Subi Mamat Yuksel)
مہمت عبداللہ کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک تصویر۔ (Courtesy of Subi Mamat Yuksel)