
عدالت سابت کی بیٹی اپنے والد سے کبھی نہیں ملی۔ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی حکومت نے ان کے شوہر کا پاسپورٹ ضبط کرلیا اور اسے شنجیانگ سے باہر جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ ویغر شنجیانگ میں ایسی حالت میں رہ رہے ہیں جہاں ان پر مستقل نظر رکھی جاتی ہے۔
سابت بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر کو ان کی ویڈیو کالیں موصول کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا جاتا ہے اور انہیں علم نہیں کہ وہ جو ویڈیوز بھیجتی ہیں وہ اُن کے شوہر تک پہنچ پاتی ہیں یا نہیں۔ سابت تنہا امریکہ میں اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔ سابت اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق اپنی ثقافت کو جتنا زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں اتنا کر رہی ہیں اور وہ اسے وہ گانے سکھاتی ہیں جو انہوں نے روائتی ویغر رقاصہ کی حیثیت سے سیکھے تھے۔
سابت نے محکمہ خارجہ کے “وائسز آف شنجیانگ” (شنجیانگ کی صدائیں) نامی پراجیکٹ کو بتایا، “میں اسے مرحلہ بہ مرحلہ اپنی زبان سکھا رہی ہوں۔ میں اسے ویغر گانے اور رقص دکھاتی ہوں۔”جون میں وائسز آف شنجیانگ نے اُن سات ویغروں کی کہانیوں کو اجاگر کیا جن کے رشتے دار پی آر سی کی جابرانہ پالیسیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
گلچہرہ ہوجہ کو اپنے اُن 24 رشتہ داروں کے بارے میں کوئی خبر نہیں جنہیں شنجیانگ میں حکام نے 31 جنوری 2018 کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا تھا۔ “[چینی کمیونسٹ پارٹی] ہماری ثقافت، ہماری زبان، ہمارے طرز زندگی کا نام و نشان مٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔” ہوجہ نے 2001ء میں امریکہ میں بطور صحافی کام کرنے کے لیے شنجیانگ خیرباد کہا تھا۔ انہوں نے وائسز آف شنجیانگ کو بتایا، “ویغر ہونے کے ناطے اِن کو زندہ رکھنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔”
Last week we shared the stories of Uyghurs around the world whose loved ones are incommunicado, imprisoned, or living in the high-tech surveillance state that Xinjiang has become. Read all seven stories here.
Join us in uplifting the #VoicesOfXinjiang, and share your story too. pic.twitter.com/eNBOXRBjbE
— Bureau of Democracy, Human Rights, and Labor (@StateDRL) June 21, 2021
2017ء سے لے کر آج تک پی آر سی شنجیانگ میں دس لاکھ سے زائد ویغروں، جن کی اکثریت مسلمان ہے، اور دیگر نسلی اور مذہبی گروپوں کے افراد کو قید کر چکی ہے۔ اِن میں سے بہت سوں سے جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔ بعض کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتٰی کہ کیمپوں سے باہر بھی ویغرمستقل نگرانی تلے زندگیاں گزار رہے ہیں اور وہ شنجیانگ سے باہر رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔
امریکہ نے ویغروں اور دیگر کے حقوق کی پامالیوں کے ذمہ دار، پی آر سی کے عہدیداروں پر پابندیاں لگائیں ہیں۔ امریکی حکومت ایسی اشیاء کے امریکہ داخلے کو بھی روکتی ہے جن کے بارے میں یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہات موجود ہوتی ہیں کہ انہیں شنجیانگ میں جبری مشقت کے تحت تیار کروایا گیا ہے۔ اس کا مقصد جبری مشقت کو روکنا ہے۔
6 جولائی کو وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے پی آر سی کے حراستی کیمپوں سے بچ نکلنے والوں سے ملاقاتیں کیں اور پی آر سی کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔
ملاقاتوں کے بعد بلنکن نے کہا، “امریکہ یکجہتی کے طور پر اُن افراد کے ساتھ کھڑا ہے جنہوں نے شنجیانگ میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے مظالم جھیلے ہیں۔ ہم ہمیشہ انصاف کی خاطر اُن کے اور اُن کے خاندانوں کے لیے جہد کریں گے۔”
Huge thanks to @SecBlinken for a very constructive roundtable today. We appreciate his leadership on action to end the Uyghur genocide, especially coordinated sanctions and the G-7 commitment on Uyghur forced labor in global supply chains.
https://t.co/gRKpErfrfV— Omer Kanat (@Omerkanat1) July 7, 2021
ثوبی مہمت یکسل نے وائسز آف شنجیانگ کو بتایا کہ وہ اکثر حیران ہوکر سوچتی ہیں کہ اُن کے والد، مہمت عبداللہ کو کیوں گرفتار کیا گیا۔ اُن کے 73 سالہ والد ایک سابقہ سرکاری کارکن ہیں۔ اُن پر “علیحدگی پسندی” اور “اختیار کے غلط استعمال” کے الزامات لگائے گئے تھے۔ تاہم یکسل کو بعد میں علم ہوا کہ اُن کے والد کو “ایک باعزت ویغر مرد” ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
یکسل نے کہا، “میرے والد جیسے لوگ بغیر کسی وجہ کے برسوں سے قید میں ہیں۔ محض اس لیے کہ وہ کون ہیں، محض اس لیے کہ وہ ویغر ہیں۔ کسی ایک انسان کو بھی منصفانہ اور شفاف مقدمے کے بغیر قید میں نہیں ہونا چاہیے۔”
