امریکہ کی پیرس سمجھوتے میں واپسی: موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ امریکہ کے تجدید شدہ عزم کا اظہار

امریکہ پیرس سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہو رہا ہے اور عالمگیر موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ممالک کے ساتھ شراکت داری کرنے کے اپنے عزم کی تجدید کر رہا ہے۔

صدر بائیڈن نے 20 جنوری کے اپنے افتتاحی خطاب کے بعد اُس باضابطہ دستاویز ہر دستخط کیے جس کے نتیجے میں امریکہ 12 دسمبر 2015 کو ہونے والے پیرس سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔ یہ سمجھوتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ تباہ کن نتائج سے بچنے کے لیے انتہائی اہم بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔

بائیڈن نے  اوول آفس میں امریکہ کی طرف سے سمجھوتے کی منظوری کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس “ضائع کرنے کے لیے وقت بالکل نہیں ہے۔ ہم ایسے طریقے سے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں جس طرح ہم نے پہلے کبھی نہیں کیا۔”

ٹوئٹر

صدر بائیڈن

امریکی حکومت کا اکاؤنٹ

ہم پیرس کے موسمیاتی تبدیلیوں کے سمجھوتے میں واپس آ گئے ہیں۔

 امریکہ پیرس سمجھوتے کی تیاری میں پیش پیش رہا ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت دنیا کے ممالک نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراجوں اور “اوسط عالمی درجہ حرارت کے اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطحوں سے دو درجے [سینٹی گریڈ] نیچے رکھنے کا عہد کیا ہے۔”

بائیڈن کے اقدام سے امریکہ 30 دن میں سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔ یہ اقدام اُس معاہدے کے ساتھ امریکی وابستگی کا اعادہ کرتا ہے جس کا حصہ دنیا کے 190 سے زائد ممالک ہیں۔ اس اقدام کا شمار اُن بہت سے اقدامات میں ہوتا ہے جو بائیڈن نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اٹھائے۔

یہ واپسی بائیڈن کے اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں امریکہ مثال قائم کرتے ہوئے دنیا کی راہنمائی کرے گا۔ اُن کے منصوبے میں امریکی اخراجوں کو کم کرنے کے لیے اونچے اہداف مقرر کیے گئے ہیں اور امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ شراکت دار ممالک کے ساتھ اخراجوں کی کمی کے اُن کے منصوبوں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرے۔

وائٹ ہاؤس نے 20 جنوری کی ٹویٹ میں کہا، “ہمارا ملک اِس سمجھوتے کے مقاصد کے فروغ کے لیے اُس عالمی قیادت کو سنبھالنے کی حالت میں دوبارہ آ جائے گا جس میں دنیا کو محفوظ درجہ حرارت پر رکھنا بھی شامل ہے۔”

بائیڈن کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ امریکہ 2050ء تک سو فیصد صاف توانائی کی حامل معیشت کھڑی کرے اور اخراجوں کی حتمی مقدار صفر پر لے آئے۔ اپنی صدارت کے پہلے سال میں وہ 2025ء تک کلیدی سنگہائے میل کو عبور کرنے کو  یقینی بنانے کے لیے کانگریس پر متعلقہ ضوابط کے نفاذ کے طریقہ کار وضح کرنے پر زور دیں گے۔

بائیڈن نے قومی سلامتی کی خاطر سابق سینیٹر اور وزیر خارجہ، جان کیری کو موسمیاتی تبدیلیوں کا سفیر مقرر کیا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس تقرری کے نتیجے میں پہلی مرتبہ قومی سلامتی کا کوئی رکن کلی طور پر موسمیاتی تبدیلیوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔

ٹوئٹر

موسمیاتی تبدیلیوں پر صدر کے خصوصی سفیر جان کیری

آج صدر نے پیرس کے آب و ہوا کے سمجھوتے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی اورامریکہ کی ساکھ اور عزم کو بحال کرتے ہوئے ہماری موسمیاتی تبدیلیوں کی قیادت کے لیے بلند ترین نہیں بلکہ کم از کم معیار مقرر کیے۔ مل جل کر کام کرتے ہوئے دنیا کوامید میں اضافہ کرنا چاہیے۔ توقع ہے کہ دنیا اسے بڑھائے گی۔ یہ کام کرنے کا وقت ہے۔ گلاسگو کا راستہ یہاں سے شروع ہوتا ہے۔

 اوباما انتظامیہ کے دوران چوٹی کے سفارت کار کی حیثیت سے، کیری کا شمار پیرس سمجھوتے کے معماروں میں ہوتا ہے۔  پچھلی حکومت اس سمجھوتے سے 4 نومبر کو دستبردار ہو گئی تھی۔

بائیڈن نے کہا کہ صاف توانائی کی حامل معیشت ” نہ صرف ایک ذمہ داری ہے” بلکہ نئی صنعتوں اور اعلی معیار کی ملازمتوں والے توانائی کے امریکی شعبے کو دوبارہ مضبوط بنانے کا “ایک موقع بھی ہے۔”

اُن کی حکومت صاف توانائی کی اختراعات اور آب و یوا میں تبدیلیوں پر تحقیق، اور امریکہ کی ماضی میں اخراجوں میں کمی لانے کی کامیابیوں کو وسعت دینے کے لیے تاریخی سرمایہ کاری کا کہے گی۔

توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے مطابق امریکہ 2005ء اور 2019ء کے درمیان توانائی کے اخراجوں میں 15 فیصد کمی لے کر آیا۔ جوہری توانائی، شیل گیس، کوئلے سے متعلقہ ٹیکنالوجیوں میں بنیادی تبدیلیوں، توانائی کے قابل تجدید وسائل، بیٹریوں میں بجلی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافوں، اور توانائی کی بہتر کارکردگی سمیت توانائی کی اختراعی ٹکنالوجیاں اِن اخراجوں میں تیزی سے کمی لانے کا سبب بنیں۔

بائیڈن نے کہا، “آب و ہوا کی تبدیلی سے ساحلی شہروں سے لے کر دیہی زمینوں، [اور] شہری مراکز تک کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ [نہ صرف یہ] بلکہ  ہمارے ماحول، ہماری صحتوں، ہماری بستیوں، ہماری قومی سلامتی، اور ہماری معاشی بہبود کی بقا بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔”