کرائمیا کی تاتار کمیونٹی کے ایک نمائندے اختم شیگوز نے مارچ میں ‘یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس’ [امن کے امریکی ادارے] میں سامعین کو بتایا کہ کرائمیائی تاتار “اپنے مستقبل کے انتخاب کے حقوق” کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اپنے آبائی علاقے کو زبردستی روس میں شامل کی جانے والی کوششوں کے خلاف پُرامن مظاہرہ کرنے کی وجہ سے روسی حکام نے 2015ء میں شیگوز کو گرفتار کیا اور دو سال کے لیے جیل میں ڈال دیا۔ کرائمیا کو روس میں شامل کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش کے پانچ برس پورے ہونے پر شیگوز نے کہا، “میرے لیے اُن لاکھوں لوگوں کے بارے میں سوچے بغیر کرائمیا پر بات کرنا مشکل ہے جن کی زندگیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں۔”
وزیر داخلہ پومپیو نے اس سال کے اوائل میں اس امر پر دوبارہ زور دیا کہ امریکی موقف اٹل ہے یعنی “کرائمیا یوکرین ہے اور اس کا اختیار بہرصورت یوکرین کو لوٹایا جانا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا، “گزشتہ پانچ برسوں میں کرائمیا پر قابض روسی حکام اپنے تسلط کی تمام تر مخالفتوں کو ختم کرنے کی اپنی مہم میں بے شمار زیادتیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔”
مقبوضہ کرائمیا میں نقاب پوش روسی سکیورٹی فورسز کے اراکان تواتر سے تاتاریوں کے گھروں پر چھاپے مارتے رہتے ہیں اور اُن کے خاندان کے افراد کو خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ مارچ میں روسی فوجیوں نے 20 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ یہ گرفتاریاں امریکی ڈانٹ کا باعث بنیں۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا، “روس: اِن افراد اور 70 سے زائد بےانصافی سے قید میں ڈالے گئے دیگر یوکرینیوں کو رہا کرو۔”
یوکرین کے جزیرہ نمائے کرائمیا کو زبردستی روس میں شامل کرنے کی 2014ء میں کی جانے والی کوشش کے علاوہ، مشرقی یوکرین میں جاری روسی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً 13,000 یوکرینی ہلاکتیں ہوئیں اور 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

کرائمیائی تاتاروں کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟
ترکی زبان بولنے والے تاتار اس خطے کے اصلی باشندے ہیں۔ روس کرائمیائی تاتاریوں پر ظلم و زیادتیاں کرنے کی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے۔ تاتاریوں کا وجود بذات خود کریملین کے اس دعوے کو باطل ثابت کرتا ہے کہ کرائمیا ہمیشہ روس کا حصہ رہا ہے۔
چودھویں صدی میں اکثریت سے اسلام قبول کرنے والے تاتاریوں نے درحقیقت 15ویں صدی میں اپنی ایک آزاد ریاست بنائی جو خانیٹ کہلائی۔ روسی ملکہ اعظم کیتھرین نے 1783ء میں اعلان کیا کہ روس نے کرائمیا کو اپنے ملک میں شامل کر لیا ہے۔ ملکہ کا یہ اعلان اپنی روسی سلطنت کو وسعت دینے کی مہم کا ایک حصہ تھا۔
آنے والے ایک سو سال میں کرائمیا سے ہزاروں تاتاریوں کو یا تو جبراً نکال دیا گیا یا اُن کو دوسرے مقامات پر بھجوا دیا گیا۔ اس کی وجہ روس کی وہ امتیازی سماجی اور معاشی پالیسیاں تھیں جن کے تحت کرائمیا کے علاقے کو یورپی تارکین وطن اور روسی اشرافیہ میں بانٹ دیا گیا۔

کرائمیائی تاتاروں نے 1944ء میں سوویت لیڈر جوزف سٹالن کے دور میں مزید تکلیفیں اٹھائیں۔ سٹالن نے تاتاریوں پر نازیوں کے ساتھ ساز باز کرنے کا جھوٹا الزام لگایا اور لگ بھگ 230,000 افراد پر مشتمل کرائمیائی تاتاروں کی آبادی کو اجتماعی طور پر بیدخل کرکے سوویت یونین کے زیر انتظام وسطی ایشیا میں جلاوطن کرکے بھجوا دیا۔
1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے بعد جلاوطنی میں رہنے والے کرائمیائی تاتاروں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے وطن واپس آنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کرائمیا میں ‘مجلس’ کے نام سے ایک نمائندہ تنظیم قائم کی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یوکرینی سیاست میں اپنا ایک سیاسی مقام بنایا۔ شیگوز کرائمیائی قوم کی مجلس کے نائب چیئرمین ہیں۔
شیگوز کہتے ہیں، “ہر وہ قدم جو دنیا ہمیں تحفظ دینے کے لیے اٹھاتی ہے ہمیں امید دلاتا ہے۔”