نیشنل پارک سروس [این پی ایس] کی بیٹی ریڈ سوسکن پارکوں میں آنے والوں کو امریکی تاریخ کے بارے میں بتانے کے لیے اپنی زندگی کے تجربے سے استفادہ کرتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے اُنہیں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اس ستمبر میں اُن کی عمر 100 برس ہو گئی۔
این پی ایس کے رینجر امریکہ اور اس کے لوگوں میں پائے جانے والے تنوع کی عکاسی کرتے ہیں۔ سوسکن نے اپنی سالگرہ کے بعد روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، “میرے خیال میں ہر شخص کی کہانی بہت اہم ہوتی ہے۔ بہت زیادہ تنوع ہے۔ اسی رنگا رنگی میں جمہوریت کا عظیم راز پنہاں ہے۔”
سوسکن کا شمار ملک کے بیس ہزار حاضر سروس رینجروں میں ہوتا ہے۔ جب 1916 میں نیشنل پارک سروس قائم کی گئی تو اس کے تقریباً تمام ملازمین سفید فام مرد تھے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آج ایک صدی سے زیادہ گزر جانے کے بعد اس کے ملازمین میں 37.8% عورتیں اور 21.5% غیر سفید فام ملازمین شامل ہیں۔
ایک سابق غلام کی پوتی، سوسکن 1921 میں ایک کیجون-کریول گھرانے میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے اوکلینڈ، کیلی فورنیا میں پرورش پائی۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران سوسکن جنگی کوششوں کے لیے کشتیاں اور ہوائی جہاز بنانے والی خواتین جیسی ایک خاتون بننا چاہتی تھیں۔ اِن خواتین کو “روزی دا رویٹر” کہا جاتا تھا۔ لیکن نسلی علیحدگی کے جم کرو قانون سمیت نافذ العمل قوانین اور رسم و رواج کے ذریعے1877 کے تعمیر نو کے اختتام سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک اُن کی طرح کی خواتین کے لیے ایسا نہ ہو سکا۔ کئی دہائیوں بعد سوسکن نے رچمنڈ، کیلی فورنیا میں روزی دی ریویٹر ورلڈ وار II ہوم فرنٹ نیشنل ہسٹوریکل پارک کی منصوبہ بندی اور منظوری حاصل کرنے میں مدد کی۔
کسی فیکٹری یا شپ یارڈ میں کام کرنے کے بجائے سوسکن نے نسلی بنیادوں پر الگ قائم کیے گئے بوائلر میکر کے اے-36 یونین ہال میں فائل کلرک کے طور پرکام کرنا شروع کر دیا۔ آج وہ قومی پارک میں ایک دیدنی تاریخ کا اضافہ کر رہی ہیں اور ان مردوں اور عورتوں کے بارے میں اپنا آنکھوں دیکھا حال دوسروں کو سناتی ہیں جنہوں نے جنگ کی انتہا پراتنی کشتیاں بنائیں کہ ہر روز ایک نئی کشتی پانی میں اتاری جاتی تھی۔

فائل کلرک کے طور پر ملازمت شروع کرنے کے لگ بھگ 60 سال بعد سوسکن نے این پی ایس کے ساتھ مل کر افریقی نژاد امریکیوں کی اُن انکہی کہانیوں سے پردہ اٹھانے کا کام کیا جنہوں نے جنگ کے دوران ملک کے اندرونی محاذ پر خدمات انجام دیں۔ یہ کام این پی ایس کے ساتھ اُس عارضی ملازمت کا باعث بنا جو 2013 میں پارک رینجر کی حیثیت سے مستقل ملازمت میں تبدیل ہو گئی۔
اس عہدے پر ترقی کے بعد وہ امریکہ کی معمر ترین حاضر سروس پارک رینجر بن گئیں۔
سوسکن کی عمر نے اُنہیں ایسی بصیرت دی ہے جو این پی ایس کے بہت کم رینجرز کو حاصل ہے۔ اُنہیں امیلیا ایرہارٹ کی آخری پرواز اور پرل ہاربر پر کیے جانے والے حملہوں جیسے امریکی تاریخ کے اہم واقعات یاد ہیں۔ وہ رچمنڈ، کیلی فورنیا کے تاریخی پارک کے مہمانوں کے مرکز میں عوام کے لیے ترتیب دیئے جانے والے پروگراموں کی سربراہ ہیں اور اپنی کہانی سننانے کے علاوہ دوسری عالمی جنگ میں سیاہ فام محنت کشوں کی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔

وہ وزیٹر سنٹر کی ویڈیو میں کہتی ہیں، ” گو کہ وہ اس مقصد کے لیے بنائے تو نہیں گئے تھے مگر ہم نے قومی پارکوں کا ایک ایسا حیرت انگیزنظام بنا دیا ہے جہاں ہم کم و بیش اپنی تاریخ کے کسی بھی دور کو دیکھ سکتے ہیں۔ “[چاہے یہ] بہادرانہ مقامات، فکر انگیز مقامات، قدرتی عجائبات، شرمناک مقامات ہوں [یا] دردناک مقامات ہوں۔ [اس کا مقصد ان سے جڑی پوری] تاریخ کو ماننا اور اپنانا ہے۔”