صدر بائیڈن نے 7 جولائی کو اعلان کیا کہ امریکہ نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے اور کہا کہ “ہم کیمیائی ہتھیاروں کی خوفناکیوں سے پاک دنیا کے مزید ایک قدم قریب ہو گئے ہیں۔”
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے حکام نے کیمیائی ہتھیار تباہ کرنے کے اس 30 سالہ عمل کے اختتام کو، کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے معاہدے کی امریکہ کی طرف سے پابندی کیے جانے اور تخفیف اسلحہ کے بین الاقوامی تعاون کو برقرار رکھنے، دونوں حوالوں سے ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ اس کامیابی کے ساتھ اس معاہدے کے تحت وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے زمرے میں آنے والے تمام ہتھیار تلف کر دیئے گئے ہیں۔
The United States has successfully completed destruction of our chemical weapons stockpile, marking a major step forward under the Chemical Weapons Convention.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) July 8, 2023
محکمہ خارجہ کی ہتھیاروں میں تخفیف اور بین الاقوامی سلامتی کی انڈر سیکرٹری، بونی جینکنز نے کہا کہ امریکہ کیمیکلز کے ہتھیاروں کے لیے نہیں بلکہ پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے ذریعے کام کرنا جاری رکھے گا۔
جینکنز نے 11 سے 14 جولائی تک ہیگ میں ہونے والی او پی سی ڈبلیو کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ کیمیائی ہتھیاروں کی [دنیا کے ممالک کے پاس] موجودگی، اِن کی تیاری، اور استعمال کا خطرہ اب بھی موجود ہے اور یہ ہماری بھرپور توجہ کا تقاضہ کرتا ہے۔”
باقیماندہ خطرات

1997 کے کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے تحت فریقیںن پر کیمیائی ہتھیار ڈیزائن کرنے، بنانے، حاصل کرنے، ذخیرہ کرنے، اپنی تحویل میں رکھنے یا کسی دوسرے کو منتقل کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کنونشنن کے تحت طے پانے والے معاہدے پر ماسوائے چار ممالک کے دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور اسے تقریباً عالمگیریت حاصل ہے۔
امریکہ نے اپنے دہائیوں پرانے کیمیائی ہتھیاروں کو ایسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے لیے 31 ارب ڈالر خرچ کیے جس کے تحت ورکروں، ڈپو کے قریب واقع بستیوں کے لوگوں اور ماحول کو محفوظ بنایا گیا۔
او پی سی ڈبلیو کے اجلاس میں جینکنز نے شام اور روس کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کنونشن کے تحت اپنے اوپرعائد ہونے والیں ذمہ داریاں پوری کریں۔
اس کنونشن پر دستخط کرنے کے باوجود روسی فیڈریشن نے کم از کم قاتلانہ حملوں کی دو کوششوں میں اعصابی گیس استعمال کی جس سے یہ پتہ چلا کہ روسی فیڈریشن کا کیمیائی ہتھیاروں کا خفیہ پروگرام موجود ہے۔ یہ اس کنونشن کی صریحی خلاف ورزی ہے۔
شام بھی اس کنونشن کا فریق ہے۔ تاہم او پی سی ڈبلیو کے تحقیق کاروں نے پتہ چلایا ہے کہ شام کی حکومت اپنے ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کے پانچ حملوں کی ذمہ دار ہے۔
مسلسل تعاون

صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاردوبارہ نہ توکبھی بنائے جائیں اور نہ ہی کبھی استعمال کیے جائیں۔” انہوں نے ایک ایسے دن کا مطالبہ کیا جب “[دنیا کے] تمام بچے کیمیائی ہتھیاروں کی لعنت سے پاک [ماحول میں] پرورش پا سکیں۔”
3 جولائی کو امریکہ کے خطرات کو کم کرنے والے ادارے اور او پی سی ڈبلیو نے کنونشن کے دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں سے چھٹکارہ دلانے کے مقصد کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی شراکت داری کا اعلان کیا۔
اس سمجھوتے کے مطابق او پی سی ڈبلیو کے کیمسٹری اور ٹکنالوجی کے مرکز کی مدد کے ذریعے، او پی سی ڈبلیو کی فارنزک اور تجزیاتی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ اس مرکز نے مئی میں کام شروع کیا ہے اور 57 ممالک اس کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی حکومت نے ایک ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ اس کا مقصد او پی سی ڈبلیو کی اُس تربیت میں مدد کرنا ہے جس کا تعلق کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے بارے میں بین الاقوامی اصولوں سے ہے۔
حفاظت پر توجہ دینا
کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کا حتمی کام کولوراڈو اور کنٹکی کی ریاستوں میں موجود ڈپوز میں کیا گیا۔
او پی سی ڈبلیو کی ایگزیٹو کونسل کے سربراہ، سفیر لوسیان فاٹو نے 12 سے 14 جون تک ریاست کنٹکی کے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے والے ‘بلیو گراس’ نامی ڈپو کے دورے کے دوران کہا کہ امریکہ کی کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی میں ہونے والی پیشرفت “کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف بین الاقوامی اصولوں کے موثرپن کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کی بہت ضرورت تھی۔”
کنٹکی میں ورکروں نے 101,000 سے زائد راکٹ اور پروجیکٹائل اور 523 امریکی ٹن کیمیائی مادے تباہ کیے گئے۔ بلیو گراس کے کیمیائی ہتھیاروں کے پلانٹ کے پائلٹ پراجیکٹ کی پراجیکٹ مینیجر، کینڈس کوائل نے امریکی ذخیرے کی تلفی کو “محض کنٹکی کے لیے ہی نہیں بلکہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے تاریخی قرار دیا۔”
پبلو کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کے پائلٹ پراجیکٹ کے ورکروں نے بھی اپنی کامیابی پر فخر کا اظہار کیا۔ 2015 کے بعد سے اب تک اس پلانٹ پر 780,000 سے زائد ہتھیار اور 2,613 امریکی ٹن مسٹرڈ زہریلی گیس تلف کی جا چکی ہے۔
کولوراڈو کے پلانٹ پر کام کرنے والی، لیوائی ویرا نے کہا کہ “یہ ہم ہیں جو [دنیا کو] دکھا رہے ہیں کہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے ہم اپنی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔”
Turn the sound on to hear what the #PCAPP workforce thinks about the complete elimination of the chemical weapons stockpile in #Colorado June 22, 2023. #HonoringOurCommitment pic.twitter.com/cOovZ1yfNb
— acwanews (@acwanews) June 26, 2023