ایک عورت رو رہی ہے اور اُس نے اپنے ہاتھ میں موبائل فون پکڑا ہوا ہے جس میں اُس کے بھائی کی تصویر نظر آ رہی ہے (© Yamil Lage/AFP/Getty Images)
لوئس فرومیٹا کو حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے جرم میں 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اوپر اُن کی بہین، ورجن فرومیٹا اپنے بھائی کی تصویر دکھا رہی ہے۔ (© Yamil Lage/AFP/Getty Images)

کیوبا کی حکومت اپنے شہریوں پر اپنی رائے کا اظہار کرنے پر زیادتیاں کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

11 جولائی 2021 کو ہزاروں کیوبن شہری پرامن طریقے سے اپنے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ کیوبا کے  شہریوں نے نومبر میں ایک بار پھر ایسا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ گزشتہ سال حکومت نے 1300 سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا جس کے نتیجے میں اب تک 550 سے زائد لوگوں کو  سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ حراست میں لیے گئے لوگوں کی اکثریت کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے نصف کرے کے امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ، برائن اے نکولس نے 12 جولائی کو میڈیا کی ایک تقریب میں کہا کہ “افسوس کی بات ہے کہ اس سال ہم نے کیوبا میں جبر کی ایک سنگدلانہ لہر کا تسلسل دیکھا ہے۔ 11 جولائی 2022 سے کئی ہفتے قبل ہم نے کیوبا کی حکومت کو منظم انداز سے کارکنوں اور صحافیوں کو حراست میں لیتے، گرفتار کرتے اور  گھروں سے نکلنے کی اُن کی صلاحیت کو محدود کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ اِن لوگوں کو ممکنہ سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ ہم نے انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کے بارے میں بھی سنا ہے۔ اس اختتام ہفتہ ہم نے کیوبا کی حکومت کی طرف سے شہریوں کو 11جے [11 جولائی] کی سالگرہ کے آس پاس کے دنوں میں جمع ہونے سے ڈرانے کے لیے پورے ملک  میں پولیس اور فوج کو تعینات کرنے کی رپورٹیں دیکھی ہیں۔”

کیوبا کی حکومت نے نابالغوں پر بھی مقدمے چلائے اور انہیں جبری مشقت کی سزائیں سنائیں۔ گرفتاری کے وقت اِن افراد کی عمریں 16 اور 17 برس تھیں۔ اب تک یہ لوگ جیل میں ایک سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں۔ 16 سال سے کم عمر کے 25 سے زائد بچوں کو حکومت کی تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

کیوبا کی حکومت نے مظاہرین کو 25 سال تک قید کی سزائیں سنائیں۔ جبکہ استغاثہ نے “غداری، تخریب کاری، ڈکیتی، اور عوامی انتشار کے جرائم پر 30 سال کی سزا دلانے کی کوششں کی۔”

11 جولائی کو مظاہرہ کرنے والے افراد کے وہ اہل خانہ جنہوں نے اپنے پیاروں کے مقدمات کے بارے میں سفارت کاروں یا صحافیوں سے بات کی، بتاتے ہیں کہ  کیوبا کی ریاستی سکیورٹی کے اہلکاروں کی طرف سے انہیں  ہراساں کیا جانا ایک معمول بن چکا ہے۔ انہیں ان کے گھروں میں جاکر باقاعدگی سے ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں بار بار سکیورٹی کے دفاتر میں انٹرویو کے لیے پیش ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُن کی نگرانی کرنا اور انہیں حراست میں لینا معمول کے واقعات بن چکے ہیں۔

مئی میں ججوں نے مظاہرہ کرنے والے ایک نابالغ بچے کے بیباک والد کو دو سال قید کی سزا سنائی۔

جون میں کیوبا کے حکام نے 11 جولائی کے مظاہرہ کرنے والے دو افراد کی ماؤں کو یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے حکام سے ملاقات کے لیے یورپ جانے سے روک دیا۔

 کیوبا میں مظاہرہ کرنے پر گرفتار کیے گئے ایک آدمی کو گردن سے پکڑا ہوا ہے (© Yamil Lage/AFP/Getty Images)اِس آدمی کو 11 جولائی 2021 کو ہوانا میں کیوبا کے صدر میگوئل ڈیاز کینیل کی حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ بعد میں اِس شخص کی شناخت رولانڈو ریمیڈیوس کے نام سے ہوئی۔ (© Yamil Lage/AFP/Getty Images)

مظاہرین کے وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکن بتاتے ہیں کہ جج مقدمات کے دوران مدعا علیہان اور ان کے گواہوں کے بیانات پر سخت قسم کی پابندیاں لگا رہے ہیں۔

ان کا جرم یہ ہے کہ وہ  اپنی حکومت سے اختلاف رکھتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں اور پرامن طریقے سے ادویات اور خوراک کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق کیوبا کی جیلیں گنجائش سے زیادہ قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ قیدیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ 12 گھنٹے کام کریں اور اگر وہ اپنے کام کا مقررہ کوٹہ پورا نہ کر سکیں  تو انہیں سزا دی جاتی ہے۔

امریکہ اُن بیانات کی حمایت کرتا ہے جو کینیڈا، یورپی یونین اور امریکی براعظموں کے ممالک کی تنظیم کی طرف سے دیے گئے ہیں۔ اِن بیانات میں کیوبا کی حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں پر کیے جانے والے ظلم و جبر کی مذمت کی گئی ہے۔

نکولس نے کہا کہ”اس جبر کے سامنے اٹھنے والی ہر آواز اُن لوگوں کی زندگیوں میں ایک تبدیلی لے کر آتی ہے جن کے ساتھ انتہائی غیر منصفانہ زیادتیاں کی جا رہی ہیں۔”