
دونوں ممالک کے درمیان کی جانے والی دو طرفہ کوششوں کے نتیجے میں امریکہ نے ہیٹی کو ثقافتی اور تاریخی اہمیت کی حامل 470 سے زائد نادر اشیاء واپس کی ہیں۔ امریکہ کی طرف سے ہیٹی کو لوٹائی جانے والی نوادرات کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
2014ء میں سب سے بڑی تعداد میں چوری شدہ اشیاء کی ایک ہی جگہ سے برآمدگی کے بعد، ایف بی آئی کی آرٹ کرائم ٹیم (آرٹ کے جرائم سے متعلقہ ٹیم) کو 7,000 ثقافتی اشیاء کی شناخت کرنے اور اُنہیں اُن کے اصلی ممالک کو واپس کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔
آرٹ کرائم ٹیم کے لیڈر، نگران خصوصی ایجنٹ، ٹِم کارپینٹر کے مطابق لگ بھگ نصف اشیاء کا تعلق آبائی امریکیوں سے تھا جبکہ دوسرے نصف کا تعلق باقی دنیا سے تھا۔
کارپینٹر نے بتایا، “سب سے پہلا قدم اقوام متحدہ کے تمام اراکین کو یہ بتانا تھا کہ ہمارے پاس یہ اشیاء موجود ہیں اور ہمیں اِن کی شناخت کے لیے اُن (ممالک) کی مدد کی ضرورت ہے۔ تاہم ہمیں ابتدا ہی سے علم تھا کہ جو اشیاء ہم اصلی ممالک کو واپس کرنے جا رہے ہیں اُن میں ہیٹی [کو جانے والی اشیاء] کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔”

محکمہ خارجہ کے ثقافتی ورثے کے مرکز، سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن، ہیٹی میں امریکی سفارت خانے اور ثقافتی ورثے کے دیگر ماہرین کی مدد سے، ایف بی آئی کی 100 ایجنٹوں پر مشتمل ایک ٹیم نے 470 ایسی اشیاء کی شناخت کی جن کا اصلی تعلق ہیٹی سے تھا۔
ان میں سے بیشتر اشیاء ٹینو ثقافت سے تعلق رکھنے والی نوادرات تھیں۔ 1492ء میں کرسٹوفیر کولمبس کی کیریبین آمد سے پہلے ٹینو باشندے کیریبین کے مقامی باسی ہوا کرتے تھے۔ مگرسولہویں صدی کے وسط تک وہ تمام کے تمام ختم ہوگئے۔
ٹینو نوادرات پتھر اور قدرتی مواد سے بنی ہوئی ہیں اور اِن کا مجموعی وزن 2,300 کلوگرام ہے۔ آرٹ کرائم ٹیم نے عجائب گھروں کے معیارات کی پابندی کی اور انہیں پیک کرتے وقت احتیاط سے کام لیا کیونکہ اِن میں سے بہت سی اشیاء صدیوں پرانی ہیں۔
اس معاملے کا آغاز تقریباً چھ سال قبل ہوا اور بالآخر 14 فروری کو اِن نوادرات کو اِن کے وطن بھجوا دیا گیا۔ اب وہ ہیٹی کے نسلیات کے قومی بیورو کی حفاظت میں ہیں۔
Over 400 Taino artifacts made their way home to #Haiti after being seized by the @FBI in 2014. This is the largest repatriation of stolen art from the U.S. to Haiti to date. In a ceremony last week #AmbSison entrusted the items to the Haitian National Bureau of Ethnology. pic.twitter.com/OHcuBtMGnF
— Michael G. Kozak (@WHAAsstSecty) February 18, 2020
آرٹ کرائم ٹیم 2014ء کی برآمدگی کی باقیماندہ اشیاء کی شناخت کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ کارپینٹر کہتے ہیں کہ اگر تنظیموں کے درمیان پسِ پردہ تعاون نہ ہوتا تو ہیٹی کی نوادرات کو واپس کرنے میں ایک لمبا عرصہ لگ جاتا۔
کارپینٹر نے کہا، “یہ ٹیم کی شکل میں کی جانے والی ایک ایسی کوشش تھی جس میں کام مکمل کرنے میں ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا۔” مگر یہ کام تھا ہی کرنے کے قابل “کیونکہ قوموں کے نزدیک اِن اشیاء کی یقیناً اہمیت ہے۔”