امریکہ کی یونیسکو میں دوبارہ شمولیت: کثیرالجہتیت کی جیت

امریکہ نے پانچ برس کی غیر حاضری کے بعد اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم، یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ہے اور اس تنظیم کا 194واں رکن ملک بن گیا ہے۔

یونیسکو کا ادارہ عالمی ورثے کے مقامات کی نامزدگی کر کے عالمی ثقافت اور قومی ورثے کا تحفظ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ تعلیم، سائنس، ثقافت، ٹکنالوجی اور صحافت کی آزادی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

خاتون اول جِل بائیڈن نے 25 جون کو پیرس میں یونیسکو کے ہیڈکوارٹر میں امریکہ کا پرچم لہرانے کی تقریب سے خطاب کیا۔

جِل بائیڈن سٹیج پر تقریر کرتے ہوئے ہاتھوں سے اشارہ کر رہی ہیں (© Aurelien Morissard/AP)
خاتون اول پیرس میں یوینیسکو کے ہیڈ کوارٹر میں امریکہ کا پرچم لہرانے کی تقریب سے خطاب کر رہی ہیں۔ (© Aurelien Morissard/AP)

انہوں نے اس تقریب کو امریکہ کے عالمی شراکت کاری اور امن سے جڑے عزم کی ایک علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارے وقت کے بعض سب سے بڑے چیلنجوں سے اکیلا رہ کر نہیں نمٹا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اپنے ملک کے شہریوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے مگر ہم ایک عالمی برادری کا ایک حصہ بھی ہیں۔”

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 10 جولائی کو امریکہ کی طرف سے یونیسکو کے آئین کی قبولیت کے کاغذات پر دستخط کیے۔ رکنیت اس وقت باضابطہ بن گئی جب امریکہ نے یونیسکو کے آئین کے امین ملک، برطانیہ کے پاس یہ دستاویز جمع کرادی۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولی نے امریکہ کی دوبارہ شمولیت کو “تاریخی” اور کثیرالجہتیت کے لیے بہترین خبر” قرار دیا۔

ازولی نے کہا کہ “امریکہ کی واپسی اور اس کے ہمراہ آنے والے اضافی وسائل ہمیں پوری دنیا میں سب کی بہتر طریقے سے مدد کرنے میں آسانیاں پیدا کریں گے جن میں شاگرد اور طالب علم، محققین، ماہرین تعلیم، آرٹسٹ، ماہرین تعلیم، صحافی  اور روزانہ کے کاموں میں ہماری توجہ کا مرکز بننے والے دیگر لوگ شامل ہوں گے۔”

نئی قیادت

سفیر ایریکا بارکس-رگلز یونیسکو میں امریکی مشن کی سربراہ ہوں گیں۔ بارکس-رگلز اس سے پہلے بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی 2022 کی کانفرنسوں اور بین الامریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمشن کی نمائندہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق وہ یونیسکو اور رکن ممالک کے نمائندوں سے اُن معاملات کے بارے میں ملاقاتیں کریں گیں جو امریکی عوام کے نزدیک اہمیت رکھتے ہیں۔ اِن میں تعلیم تک رسائی کو بڑھانا، ثقافتی ورثے کا تحفظ کرنا، صحافیوں کی حفاظت کرنا اور ہولوکاسٹ کے مظالم کو یاد رکھنا شامل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس طرح کے مظالم دوبارہ کبھی نہ ڈھائے جا سکیں۔

بارکس-رگلز نے ٹویٹ کیا کہ “موجودہ وقت میں @UNESCO [یونیسکو] کے مشن کی سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالنا [میرے لیے] اعزاز کی بات ہے۔ امریکہ کو اس تنظیم کا ایک بار پھر رکن بننے پر فخر ہے۔”

عقب سے لی گئی ایک تصویر میں بریجِٹ میکراں اور جِل بائیڈن لا مونٹ-سینٹ-مائیکل کو دیکھ رہی ہیں (© Damien Meyer/AFP/Getty Images)
دنیا بھر میں ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کی محفوظگی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے 26 جولائی کو خاتون اول، جِل بائیڈن [دائیں] اور فرانس کی خاتون اول، بریجِٹ میکراں 26 جولائی کو شمال مغربی فرانس میں واقع عالمی ورثے کی جگہ ‘لا مونٹ-سینٹ-مائیکل’ کو دیکھ رہی ہیں۔ (© Damien Meyer/AFP/Getty Images)

اس تنظیم میں امریکہ کی دوبارہ شمولیت صدر بائیڈن کی اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکہ کو عالمی سٹیج ہر بہرصورت موجود اور متحرک رہنا چاہیے۔

امریکہ 31 دسمبر 2018 کو یونیسکو سے نکل گیا تھا۔ یونیسکو سے نکلنے سے قبل امریکہ اس تنظیم کی مجموعی  فنڈنگ کا 22 فیصد مہیا کیا کرتا تھا اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق یونیسکو کی سب سے زیادہ مالی مدد کرنے والا ملک تھا۔

امریکہ کی یونیسکو میں دوبارہ شمولیت کے موقع پر بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ “امریکہ تب زیادہ مضبوظ، محفوظ اور خوشحال ہوتا ہے جب ہم باقی دنیا کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور جب ہم تعاون، شراکت کاری، اور شراکت داری کی کوشش کرتے ہیں۔”