امریکہ کے اعلٰی تعلیمی اداروں میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ

جب دو سال قبل ویٹی فیم  ویت نام سے امریکہ تعلیم حاصل کرنے آئیں تو انہیں بالکل اندازہ نہ تھا کہ ہم جنس پرست عورت یا مرد، دو جنسے، مخنث،  یا متفرق جنسے (یعنی ایل جی بی ٹی آئی) اُن جیسے کسی فرد  کے لیے یہاں کیا سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ تاہم انہیں یقین تھا کہ امریکی تعلیمی اداروں میں انہیں کھلے پن اور قبولیت کے ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

انہوں نے بتایا، “مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پورا ملک [ایل جی بی ٹی آئی] افراد کے لیے کھلا ہے۔ بیرون ملک جانا میرے لیے اپنے آپ کا حقیقی معنوں میں اظہار کرنے کے بہت سے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔”

فیم ،ریاست کنٹکی کے شہر ڈین ول کے سنٹر کالج میں ریاضی اور معاشیات میں ڈگریاں حاصل کرنے کے لیے اپنا پہلا تعلیمی سال شروع کرنے والی ہیں۔ فیم اپنے کالج کی ہم جنس پرستوں کے حقوق کی تنظیم میں بہت متحرک ہیں اور ایل جی بی ٹی آئی افراد کی حمایت کرتی ہیں۔

شین ونڈ مائیر ایک غیر منفعتی تنظیم “کیمپس پرائڈ” کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ تنظیم ایل جی بی ٹی آئی طالبعلموں کو کالجوں/یونیورسٹیوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کی بنیاد پر اُن کی درجہ بندی کرتی ہے۔ ونڈ مائیر کہتے ہیں کہ امریکہ نے گزشتہ 25 برسوں میں ایل جی بی ٹی آئی افراد کے حقوق کے تحفظ میں بہت اہم پیشرفتیں کی ہیں۔ تاہم  ابھی تک اِن کی سہولتوں کا دارومدار اُس علاقے پر ہے جس میں یہ ادارے موجود ہیں۔

انہوں نے اعلٰی امریکی تعلیم کو ایل جی بی ٹی آئی طالبعلموں کے لیے ایک ایسا “ملا جلا ماحول” قرار دیا جس میں شہری علاقوں کے یا ایسے علاقوں کے کالجوں/یونیورسٹیوں کی کارکردگی بہترین ہے جہاں تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا گروپ ایل جی بی ٹی آئی دوست ہونے کے حوالے سے  “اُن [کیمپسوں] پر توجہ مرکوز کرتا ہے جہاں صورت حال درمیانے درجے کی ہے اور اِیسے اداروں کی اکثریت ہے۔”

باوجود اس کے کہ رسائی میں اضافہ کرنے اور برابری کو فروغ دینے کے لیے  بہت سا کام کرنے کی ابھی ضرورت ہے، ونڈ مائیر کہتے ہیں کہ کالجوں/یونیورسٹیوں کے کیمپسوں کی اکثریت ایل جی بی ٹی آئی دوست بننا چاہتی ہے۔

انسانی حقوق کی حامی دو تنظیموں کے یعنی “فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق کی تحریک” اور “مساوات کے وفاق کے انسٹی ٹیوٹ”  تیار کردہ سال 2019 کے برابری کے ریاستی اشاریے کے اعداد و شمار کے مطابق، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (واشنگٹن، ڈی سی) اور16 ریاستوں میں جنسی رجحان اور صنفی شانخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی پابندی ہے۔

 قوس قزح کا پرچم تھامے ایک آدمی (© Campus Pride)
2019ء میں ‘کیمپس پرائڈ’ کی قیادت کی ایک تقریب میں شریک ایک طالبعلم (© Campus Pride)

“کیمپس پرائڈ” تنظیم آن لائن ڈیٹا بیس فراہم کرتی ہے جس سے مستقبل میں آنے والے طالبعلم ایل جی بی ٹی آئی دوست کالجوں یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ (اس ڈیٹا بیس میں صرف وہ ادارے  شامل ہوتے ہیں جنہوں نے شریک ہونے کے لیے اپنے آپ کو رجسٹر کرایا ہوتا ہے۔ اس میں امریکہ کے تمام تعلیمی ادارے شامل نہیں ہوتے۔) “کیمپس پرائڈ” چوٹی کے اُن 30 کالجوں اور یونیورسٹیوں کی درجہ بندی بھی کرتی ہے جو اپنی پالیسیوں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والے ماحول کے ذریعے ایل جی بی ٹی آئی طالبعلموں کی مدد کرتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کے کیمپسوں میں ایل جی بی ٹی آئی طالبعلموں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں سرپرستانہ پروگرام؛ صنفی شناخت سے بالاتر بیت الخلا؛ ایل جی بی ٹی آئی کے رہائشی ہال؛ تنوع، برابری اور مشمولیت کے دفاتر کا قیام؛ اور مشمولہ پالیسیاں  شامل ہیں۔ اِن پالیسیوں میں طالبعلموں کا اپنا نام تبدیل کرنے کا آسان طریقہ یا درخواستوں پر اپنی شناخت جنسی رجحان کے مطابق کروانے کی سہولتیں شامل ہو سکتیں ہیں۔

مائیکل فشر نے گیمبیئر، اوہائیو کے کینین کالج سے ریاضی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ مخنث ہیں اور اپنی شناخت مرد کی حیثیت سے کرواتے ہیں۔ فشر کہتے ہیں کہ ایل جی بی ٹی آئی طالبعلموں کو کمیونٹی کا موثر رکن بننے میں مدد کرنے کے لیے یہ لازم ہے کہ اُن کی حمایت کی جائے۔

فشر کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں کینین کالج کی ایل جی بی ٹی آئی دوستی میں اضافہ ہوا ہے اور طالبعلم یہاں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ کالج کے کیمپس پر صنفی شناخت سے بالاتر بیت الخلاؤں میں اضافہ کیا گیا ہے اور صحت کے مرکز میں عملے کو ایل جی بی ٹی آئی سے متعلقہ مسائل کے بارے میں احساس مندی سے کام لینے کی تربیت دی گئی ہے۔

فشر نے کہا، “میں اس بات سے  بہت متاثر ہوا ہوں کہ کالج میں میرے چار سالہ قیام کے دوران بہت زیادہ وسائل کا اضافہ ہوا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کالج کو ایک ایسا کیمپس بنانے میں تیزی سے  پیشرفت ہوئی جو آج  بہترین  [ایل جی بی ٹی آئی] دوست ہے اور مجھے حقیقی معنوں میں ایسا ہوتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔”

اگر آپ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایجوکیشن یو ایس اے دیکھیے۔

فری لانس مصنفہ لنڈا وانگ نے یہ مضمون تحریر کیا۔