امریکہ کے الیکٹورل کالج کو سمجھنا [اتصویری خاکہ]

جب امریکی شہری صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے تو وہ کسی ہیگنر مسٹر یا ریکس ٹیٹر نامی شخص کو ووٹ دے رہے ہوں گے۔

آپ نے غالباً مسٹر یا ٹیٹر کے بارے میں نہیں سنا ہوگا۔ در حقیقت جب 2016ء میں بہت سے ووٹروں نے اِن کا انتخاب کیا تو انہیں یہ علم نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ گزشتہ صدارتی انتخاب میں مسٹر اور ٹیٹر صدر کو منتخب کرنے والے لوگ تھے۔ یہ ایک ایسا گروپ ہے جو صدر کے انتخاب کے امریکی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس گروپ کو الیکٹورل کالج (چناؤ کرنے والا) گروپ کہا جاتا ہے۔

ریاستی سیاسی پارٹیاں اُن “انتخاب کرنے والوں” کو چنتی ہیں جو یہ انتخاب ہو جانے کے بعد صدر منتخب کرنے کے لیے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ (عام) ووٹر انتخاب کے دوران بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدواروں کے نام دیکھتے ہیں مگر درحقیقت اُن کے ووٹوں سے اُن انتخاب کرنے والوں کو چنا جاتا ہے جو کسی ایک (صدارتی) امیدوار کی حمایت کرنے کا وعدہ کرچکے ہوتے ہیں۔ (مسٹر نے جو کہ ریاست میری لینڈ کے زراعت کے وزیر رہ چکے ہیں 2016ء میں ہلری کلنٹن کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ ٹیٹر، ٹیکساس میں ایک مبلغ ہیں اور اُس سال انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔)

تصویری خاکے کا متن جس میں صدارتی انتخاب کا نظام الاوقات بیان کیا گیا ہے (State Dept./M. Rios)
(State Dept./M. Rios)

لوئی وِل یونیورسٹی کے شہری تعلیم پر مرکوز غیرمنفعتی نصابی مرکز، میکانل سنٹر کے ڈائریکٹر، گیری گریگ کہتے ہیں کہ الیکٹورل کالج کو بیان کرنا مشکل ہے۔ ہر امریکی ریاست کے انتخاب کرنے والوں کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ اُس ریاست کے امریکی ایوان نمائندگان میں رکن ہوتے ہیں۔ اس تعداد میں دو کا اضافہ کیا جاتا ہے کیونکہ ہر ریاست کے امریکی سینیٹ میں دو سینیٹر ہوتے ہیں۔ یہ انتخاب کرنے والے امریکہ کے نئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

ایک نظام کی شروعات

ملک کے بانیوں نے انتظامی اختیارات کا حامل صدارت کا عہدہ قائم کیا تاکہ ملکی امور چلائے جا سکیں۔ چونکہ صدر عوام کا نمائندہ ہوتا ہے لہذا صدارت مطلق العاننیت نہیں بن سکتی۔

گریگ کہتے ہیں کہ اُس دور میں عوامی ووٹ پر سنجیدگی سے غور اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ تب جدید دور کی مواصلاتی سہولتیں یا پورے ملک میں پھیلے امیدواروں کے بارے میں جاننے میں مدد کرنے والا سیاسی پارٹیوں کا منظم نظام موجود نہیں تھا۔ بصورت دیگر انتخابات کا عموماً ایک ایسا نتیجہ سامنے آتا جس میں بہت سارے امیدوار واضح اکثریت حاصل نہ کر پاتے اور ایوان نمائندگان کو صدر کا فیصلہ کرنا پڑتا۔

انتخاب کرنے والوں کی بنیاد کانگریس میں نمائندگی پر رکھنا اُس مفاہمت کی عکاسی کرتا ہے جو انتخاب کرنے والوں کے بارے میں ریاستوں کے مابین پائی جاتی ہے۔ ایوان نمائندگان میں زیادہ آبادی والی ریاستوں کے ارکان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ تعداد اُن کی آبادی کے تناسب سے مقرر کی جاتی ہے جبکہ سینیٹ میں آبادی سے قطع نظر سب ریاستوں کے سینیٹروں کی تعداد برابر (یعنی دو) ہوتی ہے۔

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (واشنگٹن ڈی سی) اور دیگر 48 ریاستیں اپنے سارے کے سارے ووٹ اپنے ہاں جیتنے والے امیدار کو دیتی ہیں چاہے وہ معمولی فرق سے جیتے یا ہزاروں ووٹوں سے جیتے۔ صرف نیبراسکا اور مین کی ریاستوں میں انتخاب کرنے والوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک سے زائد امیدوار کو جیتنے کی اجازت ہے۔

امریکہ کے دو نقشے جن میں سے ایک میں ہر ریاست کے انتخاب کرنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے (State Dept./J. Maruszewski; Images: © Shutterstock)

ایمہرسٹ میں میساچوسٹس کی یونیورسٹی میں سیاسیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ایمل احمد اس نظام کا موازنہ بیس بال کی عالمی سیریز کے نظام کے ساتھ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “سیریز جیتنے والی ٹیم وہ نہیں ہوتی جو سب سے زیادہ رنز بناتی ہے۔ بلکہ وہ ٹیم ہوتی ہے جو سب سے زیادہ میچ جیتتی ہے۔”

پروفیسر احمد کہتی ہیں کہ اس نظام کے تحت ووٹوں کے حوالے سے سونگ سٹیٹس (پانسہ پلٹنے والی ریاستیں) سامنے آتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں صدارتی امیدواروں پر اپنے حجم سے زیادہ اثرونفوذ حاصل ہو جاتا ہے۔ پانسہ پلٹنے والی ریاستیں وہ ریاستیں ہوتی ہیں جہاں ہر انتخابی سال میں سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔

گریگ کہتے ہیں کہ گزشتہ 70 برسوں کے انتخابات جو مسابقتی چلے آ رہے ہیں اور اِن میں بہت سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے صدر جیتے ہیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ نظام کام کر رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے، “الیکٹورل کالج نے ہمیں اچھے، مسابقتی، اور مستند انتخابات دیئے ہیں۔”

نتائج

انتخاب کرنے والے دسمبر میں صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ دینے کی خاطر اپنی اپنی ریاستوں میں جمع ہوتے ہیں۔ نتائج سینیٹ کے صدر کو بھیجے جاتے ہیں۔ امریکہ کا نائب صدر امریکی سینیٹ کا صدر بھی ہوتا ہے۔ ووٹ گننے کے لیے کانگریس کا اجلاس جنوری کے شروع میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد سینیٹ کا صدر جیتنے والے امیدوار کا اعلان کرتا ہے۔ 20 جنوری کو دوپہر 12 بجے نومنتخب صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے اور امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔