امریکہ کے اولین سیاہ فام میرین: دی مونٹفرڈ پوائنٹرز

یہ 1943 کا سال تھا جب جوزف کارپینٹر کو واشنگٹن میں اپنے گھر میں ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر جیکسن وِل کے علاقے میں واقع کیمپ مونٹفرڈ میں رپورٹ کرنے کے احکامات موصول ہوئے۔

96 سالہ کارپینٹر کہتے ہیں، “مجھے میرین ہونے پر فخر تھا کیونکہ یہ ایک شاندار تاریخ کےامین ہیں۔”

درحقیقت 1943 میں کارپینٹر امریکی میرین کور کے پہلے سیاہ فام رکن کے طور پر بھرتی ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔

Black Marine posing for picture (Courtesy of Joseph Carpenter)
جوزف کارپینٹر 1944 میں مونٹفورڈ پوائنٹ میں۔ (Courtesy photo)

مونٹفرڈ پوائنٹ میں 20,000 سے زیادہ سیاہ فاموں نے تربیت پائی (اسی لیے انہیں مونٹفرڈ پوائنٹرز کہا جاتا ہے) کیونکہ اس وقت بیشتر امریکہ کی طرح، فوج میں بھی نسلی امتیاز موجود تھا۔

1948 میں جب صدر ہیری ایس ٹرومین نے فوج میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے انتظامی حکم پر دستخط کیے تو فوج تبدیل ہو گئی۔ تاہم دوسری جنگ عظیم  کے دوران کارپینٹر نے سیاہ فام یونٹ میں ہی تربیت پائی۔

خواہ وہ نسلی اعتبار سے جداگانہ یونٹوں میں لڑے ہوں یا انہوں نے مربوط یونٹوںں میں رہتے ہوئے لڑائی میں شرکت کی ہو، مگر سیاہ فام سپاہیوں نے ملک قائم ہونے سے پہلے بھی ہر بڑی امریکی جنگ میں حصہ لیا۔ ( سائیڈ بار ملاحظہ فرمائیں )

مونٹفرڈ پوائنٹرز امریکی فضائیہ کے سیاہ فام امریکی سکواڈرن کے اُن ٹسکیگی ایئرمینوں کی طرح مشہور نہیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں قابل تعریف لڑاکا یونٹ کی حیثیت سے شہرت پانے سے قبل، الاباما میں جنگی جہازوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔

تاہم مونٹفرڈ پوائنٹرز نے بھی امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان میں سے تقریباً 13,000 دوسری جنگ عظیم کے دوران بیرون ملک گئے اور کم و بیش 2,000 نے اس جنگ میں بحرالکاہل کے محاذ پر سمندر سے ساحل پر اترنے کی سب سے بڑی کارروائی میں، جزیرہ اوکی ناوا پر قبضہ کرنے میں اتحادی افواج کی مدد کی۔

رکاوٹوں کا خاتمہ

مونٹفرڈ پوائنٹرز جب اپنے فوجی اڈے سے نکل کر جیکسن ول میں جاتے تھے تو انہیں نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جنوب میں “جِم کرو” نامی قوانین کے تحت سکولوں اور کاروباروں میں سفید اور سیاہ فام لوگوں کو الگ الگ رکھنا ضروری ہوتا تھا۔

1942 میں میرین میں شمولیت اختیار کرنے والے 94 سالہ سابق سارجنٹ، ایڈون فائزر کو یاد ہے کہ بعض سفید فام افسر اور استاد نئے سیاہ فام سپاہیوں کی صلاحیتوں کو شک کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کامیابی حاصل کرنے پر ان کا عزم مزید پختہ ہو گیا۔

فائزر نے ایلا نائے سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا، “ہمیں یہ مرحلہ عبور کرنا تھا تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم میرین کور میں رہنے اور اچھی کارکردگی دکھانے کے اہل ہیں۔”

فائزر نے گوام کو جاپانیوں سے واپس لینے کی جنگ میں شرکت کی جبکہ کارپینٹر، مونٹفرڈ پوائنٹ میں چیف کلرک کے طور پر کام کرتے رہے اور یورپی جنگی قیدیوں کو بحری جہازوں سے اتارنے کے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ 1980 کی دہائی میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ مونٹفرڈ پوائنٹرز کے بہت سے میرینز نے کوریا اور ویت نام کی جنگوں میں بھی خدمات سر انجام دیں۔

میراث جاری ہے

Man holding gold medal cupped in his hands (State Dept./D.A. Peterson)
96 سالہ ریٹائرد لیفٹننٹ کرنل جوزف کارپینٹر “کانگریشنل گولڈ میڈل” کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں جو مونٹفرد پوائنٹ میرین کے طور پر انجام دی جانے والی اُن کی خدمات کے صلے میں 2012 میں انہیں دیا گیا۔ (State Dept./D.A. Peterson)

دوسری جنگ عظیم میں انجام دی گئی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مونٹفرڈ پوائنٹ کے میرینز کو 2012 میں ” کانگریشنل گولڈ میڈل” یعنی کانگریس کا سونے کا تمغہ ملا جو کہ امریکی کانگریس کی جانب سے دیا جانے والا اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ہے۔

1974 میں کیمپ مونٹفرڈ پوائنٹ کا نام تبدیل کر کے وہاں ڈرل انسٹرکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے افریقی نژاد امریکی سارجنٹ میجر کے نام پر “کیمپ گلبرٹ ایچ جانسن” رکھا گیا۔ میرین کور کی لائبریری میں دستاویزات کے مہتمم جان لائلز کہتے ہیں، “یہ کسی افریقی نژاد امریکی کے نام سے موسوم واحد میرین چھا ؤنی ہے۔” (امریکی بحریہ کے ایک جہاز کا نام بھی اسی کیمپ سے منسوب ہے۔)

نیشنل مونٹفرڈ پوائنٹ میرین ایسوی ایشن کے مطابق امریکہ کے ابتدائی سیاہ فام میرینز میں سے تقریباً 400 اب بھی حیات ہیں۔

نئی نسل کے لیے

فائزر چاہتے ہیں کہ نئی نسل کو مونٹفرڈ پوائنٹرز کی جدوجہد سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ وقت درست سمت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ فائزر کا کہنا ہے، “میں انہیں اس امر کی ستائش کے قابل بنانا چاہتا ہوں کہ ہم نے مخالفت  پر کیسے قابو پایا۔ یہ ایک بنیاد ہے جسے ہم نے  تعمیر کیا اور وہ ہمارے کندھوں پر کھڑے ہیں اور یہاں سے آگے بڑھ  رہے ہیں۔”

یہ مضمون فری لانس مصنف لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا اور اسے ابتدائی طور پر 7 فروری 2018 کو شائع کیا گیا۔

ماضی پر ایک نظر

Drawing of man in close-up (Alamy)
کرسپس اٹکس کا تصویری خاکہ۔ (© Science History Images/Alamy)

انقلابی جنگ:  ایک غلام ماں کے بیٹے، کرسپس ایٹکس کا شمار1770 میں امریکی انقلاب کے نقیب، بوسٹن قتل عام میں مارے جانے والے ہیروز میں ہوتا ہے۔ اس جنگ میں قریباً 5,000 سیاہ فام سپاہی محب وطن فریق کی جانب سے لڑے تھے۔

–––––––––––––––––––––––––––––––

Monument with bronze horse and soldiers (© AP Images)
یونین افواج کے کرنل رابرٹ گولڈ شاہ اور اُن کے افریقی نژاد امریکی فوجیوں کی اگسٹس سینٹ گاؤڈن کی یادگار۔ (© AP Images)

خانہ جنگی: میساچوسیٹس کی 54ویں انفنٹری رجمنٹ، 1,007 سیاہ فام جوانوں اور 37 سفید فام افسروں پر مشتمل تھی جس نے غلامی ختم کرنے کے لیے 1863 میں کنفیڈریٹ سپاہ کے خلاف جنگ شروع کی۔

–––––––––––––––––––––––––––––––

Soldiers lining boat deck and cheering (National Archives)
مکمل طور پر سیاہ فاموں پر مشتمل اور اعلٰی اعزاز یافتہ، “ہارلیم ہیل فائٹرز” کے نام سے مشہور 369ویں انفنٹری رجمنٹ کی فرانس سے واپسی۔ (National Archives)

پہلی جنگ عظیم:  تین لاکھ 50 ہزار سے زیادہ سیاہ فام امریکیوں نے یورپ میں مغربی محاذ پر خدمات انجام دیں۔

–––––––––––––––––––––––––––––––

FIve-member aircrew posing before aircraft (© Afro American Newspapers/Gado/Getty Images)
ٹسکیگی ایرمین کے ہواباز 1944 میں تصویر کھنچواتے ہوئے۔ (© Afro American Newspapers/Gado/Getty Images)

دوسری جنگ عظیم: امریکہ کی بری فوج کی فضائی کور نے الاباما کے ٹسکیگی انسٹیٹیوٹ میں افریقی نژاد امریکی پائلٹوں اور زمینی عملے کو تربیت دینے کے لیے نسلی بنیادوں پر ایک جداگانہ یونٹ قائم کیا۔ ٹسکیگی کے ایئرمینوں نے 15,500 جنگی پروازیں کیں۔

–––––––––––––––––––––––––––––––

Harry S. Truman seated at desk with pen in hand (© AP Images)
ہیری ایس ٹرومین 1948 میں وائٹ ہاؤس میں اپنے دفتر میں۔ (© AP Images)

1948: صدر ہیری ایس ٹرومین نے ایک انتظامی حکم پر دستخط کیے جس کے تحت امریکی فوج میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا۔