
سابق نائب صدر اور کیپیٹل ہل (کانگریس) کے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے اور دونوں سیاسی پارٹیوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے جانے جانے والے قانون ساز جوزف آر بائیڈن جونیئر، 20 جنوری کو امریکہ کے چھیالیسویں صدر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
بائیڈن نے سابق صدر بارک اوباما کے نائب صدر کی حیثیت سے آٹھ سال خدمات انجام دیں اور انہوں نے موجودہ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو شکست دی۔
فتح کے راہ پر گامزن بائیڈن نے 306 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے (صدر بننے کے لیے 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں) اور 81 ملین انفرادی ووٹ لیے۔ امریکی تاریخ میں کسی اور صدارتی امیدوار نے اتنی بڑی تعداد میں انفرادی ووٹ نہیں لیے۔
بائیڈن نے فتح کے بعد 7 نومبر کو اپنی تقریر میں کہا، “مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ (اس فتح) نے مجھے حیران کر دیا ہے۔ آج کی رات ہم نے ملک کے طول و عرض میں، ملک کے تمام حصوں کے ہر ایک شہر میں، واقعتاً پوری دنیا میں، خوشی، امید، آنے والے کل پر ایک نیا یقینِ، ایک بہتر دن لانے کی لہر دیکھی ہے۔ اور آپ نے مجھ پر جو بھروسہ اور اعتماد کیا ہے یہ میرے لیے ایک اعزاز ہے۔”
بائیڈن کا خارجہ پالیسی کا وسیع تجربہ

ریاست پنسلوینیا کے شہر سکرینٹن میں پیدا اور ریاست ڈیلویئر میں بڑے ہونے والے، بائیڈن دہائیوں پر محیط کیپیٹل ہل کا تجربہ لیے وائٹ ہاؤس میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے 36 برس سینیٹر کی حیثیت سے ریاست ڈیلویئر کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی صورت گری میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ 12 برس تک سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے نائب سربراہ کی حیثیت سے بائیڈن دہشت گردی، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں، سرد جنگ کے بعد کے یورپ، مشرق وسطی اور جنوب مغربی ایشیا سے متعلق مسائل اور قانون سازی کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔
نائب صدر کی حیثیت سے بائیڈن نے بیرون ملک امریکہ کی نمائندگی کی اور 50 سے زائد ممالک کے دورے کرتے ہوئے لگ بھگ 20 لاکھ کلو میٹر کا سفر کیا۔
وائٹ ہاؤس میں انہوں نے اوباما کی کابینہ کے اجلاس طلب کیے، بین الاداراتی کاموں کی قیادت کی اور دیگر امور کے علاوہ، درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے امریکیوں کے زندگی کے معیار بڑہانے، اسلحے کے استعمال سے کیے جانے والے تشدد کو کم کرنے اور عورتوں پر کیے جانے والے تشدد سے نمٹنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا۔
78 سالہ بائیڈن امریکہ میں صدارت کا منصب سنبھالنے والے معمر ترین صدر ہوں گے۔ جب ٹرمپ نے حلف اٹھایا تو وہ 70 برس کے تھے۔ (عہدے کی مدت ختم ہوتے وقت سابق صدر رونالڈ ریگن کی عمر 77 برس تھی۔)
بائیڈن اپنی انتظامیہ کے ابتدائی دنوں میں ملک کو متحد کرنے اور کووڈ-19 وبا، اچھی تنخواہوں والی ملازمتوں، نسلی نا انصافی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے فوری مسائل سے نمٹے پر توجہ مرکوز کریں گے۔
بائیڈن نے فتح کے بعد اپنی تقریر میں کہا، “آئیے ایک ایسی قوم بنیں جو ہم جانتے ہیں کہ ہم بن سکتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو متحد ہو، جو مضبوط ہو۔ جس کے زخم مندمل ہو چکے ہوں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ، خواتین و حضرات، (ہماری تاریخ میں) ایسا کوئی کام کبھی بھی نہیں رہا، ہرگز نہیں رہا جسے ہم نے کرنے کی کوشش کی اور نہ کر سکے ہوں۔”