رویا ہاکیان نے کریانہ اسٹور کے اناج والے حصے ميں جو پايا اسے وہ بطور امریکی تارکین وطن مخصوص لمحے کی حیثیت سے دیکھتی ہيں۔ہاکاکیان اور ان کی والدہ 1985 میں ، یہودی ایرانی مہاجرین کی حیثیت سے امریکہ پہنچ گئیں، اس کے بعد جب ہاکاین اپنے آبائی ملک میں 1979 کے انقلاب کے نتیجے میں برپا ہونے والے ہنگامے اور ہلچل کے دوران بالغ ہوئ تھيں۔ہاکایان ایک انسانی حقوق کے کارکن ، شاعر اور مصنفہ ہیں جن کی نئی کتاب امریکہ کے بارے ميں ابتدائی رہنمائ ہے۔
1985 میں ایک دن ، بہت سارے تارکین وطن کی طرح ، جو پہلی بار کسی امریکی سپر مارکیٹ میں آئے تھے ، ہاکایان امریکہ میں اناج کی اقسام کی “حیرت انگیز اقسام” دیکھ کر دنگ رہ گئيں۔ وہ کہتی ہیں کہ قطار در قطار موجود شيلفوں کو شاید امریکہ سے باہر کے لوگوں نے بے وقوفی کی علامت کے طور پر دیکھا ہو۔ لیکن اس کے ليے ، بے شمار شیلف جمہوریت میں انتخاب کی کثرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ پیغام جو اناج کے الماريوں میں اسے نظر آيا وہ يہ ہے کہ ، “آپ وہ شخص ہیں جسے زندگی کے ہر چھوٹے قدم کے بارے میں سوچنے اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔”
ہاکایان نے امریکن پرپز نامی میڈیا پروجیکٹ اور دانشور برادری کے ساتھ انٹرویو میں اپنے خیالات کی وضاحت کی جو لبرل جمہوریت کی حمایت کرتی ہے۔انہوں نے ہنگامہ آرائی کی جگہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ آنے کے بارے میں بھی بات کی ، جہاں شادیوں جیسی چیزوں کا منصوبہ پہلے سے تیار کیا جاتا تھا۔”[ایران میں] اس بات کا کوئی احساس نہیں تھا کہ مستقبل کہاں جارہا ہے اور ہم وہاں کیسے پہنچیں گے اور اسی طرح ، میرے نزدیک ، منصوبہ بندی کا یہ آسان نظریہ، جسے امریکی اچھی طرح سے انجام دیتے ہیں … یہ خیال کہ مستقبل ہے اور ہمارا پروجیکٹ اس مستقبل تک زندہ رہنا ہے اور اس کا منتظر رہنا تھا ، گہرائیوں سے سوچ کو ہلا رہا تھا۔اب ایک امریکی شہری اور گوگین ہائیم نان فکشن انعام یافتہ ، ہاکاکین نے اپنے آبائی ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کے لئے ایران کی انسانی حقوق سے متعلق دستاویزی مرکز کے قيام میں مدد کی۔

ان کی نئی کتاب میں امریکہ میں آمد اور (ماحول) ميں انتہائ فرق کے نتيجے ميں محسوس کيے جانے والے جھٹکے اور آنکھوں کو کھول دينے والے ردعمل کی نشاندہی کی گئی ہے – جیسے کہ ايسی عورتوں کو ديکھنا جنھوں نے سر نہيں ڈھانپے اور انھيں سر ڈھانپنے والی عورتوں پر کوئ اعتراض نہيں ہے۔ اور يہی صورت حال اس کے برعکس بھی ہے۔ ہاکایان نے اسے کتاب میں ایک اور امریکی معجزہ قرار دیا ہے ، جس میں نہ صرف نسلوں بلکہ عقائد کو بھی ہم آہنگی حاصل ہے۔وہ لکھتی ہیں، “جب تک آپ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے ہیں تب تک کوئی بھی آپ کے کاموں کی طرف نگاہ نہیں اٹھاتا اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتا ہے۔”وہ کہتی ہیں ، “اس تروتازہ بے پروائ کے برفیلے سکون کی تمازت محسوس کريں”۔
ہاکایان چھوٹے ثقافتی اختلافات کا مشاہدہ کرتی ہیں جو بڑے فلسفے، جیسے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کار سیٹ بیلٹ اور موٹر سائیکل ہیلمٹ کے لئے امریکی ضروريات کی جگہ ليتے ہيں ۔ وہ لکھتی ہیں ، “ان حفاظتی اقدامات سے آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ اپنے پاسپورٹ میں کسی مہر یا ڈاک ٹکٹ سے بہتر ہیں، کہ آپ باضابطہ طور پر کسی ایسے علاقے میں چلے گئے ہیں جہاں انسانی زندگی اتنی سستی نہیں ہے جتنا آپ جانتے تھے۔”

اس عنوان کے باوجود ، ہاکایان نے کہا کہ ان کی نان فکشن کتاب کے لئے ایک ہدف امریکی سامعين تھے، تا کہ ان کو تارکین وطن کے تجربے اور اس کی قدر کو سمجھنے میں مدد ملے۔ہاکایان امریکہ کی خصوصیات پر بھی کڑی نگاہ ڈالتی ہے، جس کے ایک باب کا عنوان ہے ، “امريکہ کے بارے ميں پیار کرنے والی ، مایوس کن اور غمزدہ (باتيں)”لیکن اس کا بنیادی مقصد “جمہوری اقدار کے چھوٹے چھوٹے مظاہر اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں بنیادی اصولوں کو تسلیم کرنا ہے۔””اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ،” انہوں نے امریکن پرپز کے سامعین کو بتایا کہ “ہم ان کے کھونے کا خطرہ رکھتے ہیں۔”