امریکہ کے باوقار ترین ایوارڈ

لوگوں کے درمیان کرسی پر بیٹھیں ڈوروتھی ہائیٹ ڈبیہ میں رکھا میڈل وصول کر رہی ہیں (© Stephen Jaffe/AFP/Getty Images)
خواتین کے حقوق کی چمپیئن اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن ڈوروتھی ہائیٹ 2004 میں واشنگٹن میں کانگریس کا گولڈ میڈل وصول کر رہی ہیں۔ (© Stephen Jaffe/AFP/Getty Images)

ایک طویل عرصے سے امریکہ کے دو مشہور ترین ایوارڈوں یعنی کانگریس کے گولڈ میڈل اور آزادی کے صدارتی میڈل کے پیچھے  جو جذبہ کارفرما چلا آ رہا ہے وہ فوجی اور سویلین شخصیات  کے تاریخی واقعات اور غیرمعمولی ایثار کا جذبہ ہے۔

کانگریس کا گولڈ میڈل مقننہ کی طرف سے کامیابیوں اور خدمات کے اعتراف کا اعلٰی ترین اظہار ہے۔ یہ میڈل کانگریس کی منظوری سے دیا جاتا ہے۔ شروع میں یہ میڈل انقلابی جنگ، 1812ء کی جنگ اور میکسیکو اور امریکہ کی جنگ  میں بہادری کے کارناموں پر امریکی شہریوں کو دیا جاتا تھا۔ بعد میں کانگریس نے اس کا دائرہ انسانیت کی خدمت کرنے والوں، عوامی خادموں، زندگی بچانے والوں، تحقیق و جستجو کرنے والوں، سائنس دانوں، ماہرینِ صحت، اداکاروں، موسیقاروں اور مصنفین تک بڑہا دیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھکر، یہ میڈل اب غیرملکی شہریوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔

کانگریس کے گولڈ میڈل پولیو کی پہلی ویکسین دریافت کرنے والے، ڈاکٹر جوناس سلک؛ ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے اور مصنف، ایلی ویزل؛ اور نسل پرستی کے مخالف راہنما اور جنوبی افریقہ کے سابق صدر، نیلسن منڈیلا جیسی شخصیات کو انفرادی طور پردیئے گئے۔ اس کے علاوہ یہ میڈل مونٹ فورڈ پوائنٹ میرینز، کوڈ میں بات کرنے والے امریکی انڈین اور 11 ستمبر 2001 کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بننے والوں کو گروپوں کی شکل میں اور بحر اوقیانوس کے پار پہلی کامیاب پرواز اڑانے جیسے مشہور واقعات پر بھی دیا گیا۔

 بحریہ کے جوان جہاز پر تصویر کھچوانے کے لیے تیار (© PhotoQuest/Getty Images)
یو ایس ایس انڈیاناپولس نامی جہاز کے 1945ء میں ڈوبنے سے قبل، عملے کے ارکان تصویر کھچوانے کے لیے تیار۔ (© PhotoQuest/Getty Images)

ایک باوقار میڈل

جولائی میں کانگریس نے یو ایس ایس انڈیاناپولس نامی بحری جہاز کے 1,195 جوانوں کو یہ میڈل دیا۔ 75 برس قبل اُن کا یہ کروزر جہاز شاہی جاپان کے تارپیڈووں کا نشانہ بننے کے بعد شارک مچھلیوں سے بھرے پانیوں میں ڈوب گیا۔ یہ جہاز امریکہ کے ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹمی بم کے اجزا پہنچا کر آیا تھا۔ انڈیاناپولس کے عملے کے لگ بھگ آدھے رکن اس حملے میں محفوظ رہے۔ آج صرف آٹھ زندہ ہیں۔

اس حملے کے بعد آنے والوں برسوں میں امریکی بحریہ کے ریٹائرڈ کیپٹن، ولیم ٹوٹی کی حملے میں بچ جانے والوں سے جان پہچان ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ (جوان) اس اعزاز کی توقع نہیں کرتے تھے۔ کانگریس کے گولڈ میڈل کی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ٹوٹی نے کہا، “انڈیاناپولس’ کے عملے کا ایک بھی رکن اپنے آپ کو ہیرو نہیں کہتا۔ مگر وہ سب یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہیروز کے عملے میں خدمات انجام دیں۔”

آزادی کا صدارتی میڈل

اس میڈل کا اجرا 1963ء میں اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی نے کیا۔ آزادی کا صدارتی میڈل امریکہ کا سب سے بڑا سویلین اعزاز ہے۔ امریکہ کے صدر یہ میڈل امریکی معاشرے میں شاندار خدمات سرانجام دینے والے کسی بھی فرد کو دے سکتے ہیں۔

ماضی میں یہ میڈل انسانی حقوق کے لیڈر، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر؛ باسکٹ بال کے افسانوی کھلاڑی، مائیکل جورڈن؛ گلوکار، ایلویس پریسلے؛ اداکار، ٹام ہینکس، اور ایونجلسٹ پادری بلی گراہم (جو سب کے سب امریکی تھے) کے علاوہ ایک البانوی نژاد بھارتی، مادر ٹریسا کو دیا گیا۔

 گول شکل کے میڈل جس پر روزا پارکس کی شبیہہ کندہ ہے کے ساتھ فیتے سے بندھا ستارہ جس کے دونوں طرف عقاب ہیں (Library of Congress)
شہری حقوق کی سرگرم کارکن، روزا پارکس نے 1999 میں کانگریس کا گولڈ میڈل (بائیں) اور 1996 میں آزادی کا صدارتی میڈل حاصل کیا۔ (Library of Congress)

1955ء میں نسلی بنیادوں پر علیحدہ علیحدہ سیٹوں والی بس میں ایک سفید فام آدمی کے لیے اپنی سیٹ چھوڑنے سے انکار کرکے شہری حقوق کی تحریک کا آغاز کرنے والی، روزا پارکس بھی یہ میڈل حاصل کرنے  والے افراد میں شامل ہیں۔