فیصل بن فرحان السعود اور مائیکل آر پومپیو سٹیج پر کھڑے ہیں (© Manuel Balce Ceneta/AP Images)
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو (دائیں) 14 اکتوبر کو امریکی محکمہ خارجہ میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (© Manuel Balce Ceneta/AP Images)

خلیج فارس کے ممالک کے اقتصادی اور سلامتی کے مفادات امریکہ کے مفادات سے ملتے جلتے ہیں اور اُن کے لیڈر اِن شراکت داریوں کو توسیع دینا چاہتے ہیں۔

امریکہ نے حال ہی میں طویل مدت سے چلے آ رہے اتحادیوں، یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ  مشترکہ مفادات کو مزید فروغ دینے کے لیے تزویراتی مذاکرات کیے۔

تینوں ممالک دہشت گردی کی مالی مدد کو ہدف بنانے والے مرکز کا حصہ ہیں۔ اس مرکز میں خلیجی تعاون کی کونسل کے اراکین اور امریکہ شامل ہیں۔ یہ مرکز دنیا بھر میں دہشت گردوں کے پیسوں کے ذرائع کا کھوج لگاتا ہے اور انہیں ختم کرتا ہے۔

14 اکتوبر کو سعودی عرب کے ساتھ ہونے والی بات چیت، 2006ء کے بعد اپنی نوعیت کی پہلی بات چیت تھی۔ سعودی عرب داعش کو شکست دینے کے اتحاد کا مشترکہ لیڈر ہے اور جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے میں انتہائی اہم شراکت دار ہے۔

سعودی عرب اس کے علاوہ یمن میں ہونے والی لڑائی کے ایک ایسے سیاسی حل کے لیے پرعزم ہے جو اقوام متحدہ کی سرپرستی میں یمن کی حکومت اور حوتیوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے۔ سعودی عرب شامی استحکام کے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے، یمن کی انسانی امداد اور ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

سعودی – امریکی اتحاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “ہم نے ایران کی بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں کا، اور اس (ایران) سے خطے کی سلامتی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی عزم کا اعادہ کیا۔”

 عبدالعزیز ابن سعود اور فرینکلن ڈی روز ویلٹ بیٹھے ہوئے ہیں اور باتیں کر رہے ہیں (© AP Images)
صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ، دائیں، اور سعودی بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود 14 فروری 1945 کو سعودی – امریکی تعلقات پر گفتگو کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

اس سال صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ اور سعودی بادشاہ عبد العزیز کے درمیان اس ملاقات کی 75ویں سالگرہ ہے جس کے بعد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان جدید تعلقات قائم ہوئے۔

آج چونتیس ہزار سعودی طلبا امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں بین الاقوامی طلبا کی یہ چوتھی بڑی تعداد ہے۔ امریکہ کی سعودی عرب کے ساتھ 27 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کی تجارت ہوتی ہے۔

20 اکتوبر کو باہمی دلچسپی کے حامل شعبوں سے متعلق امریکہ اور متحدہ عرب امارات نے پہلے تزویراتی مذاکرات مکمل کیے۔ اِن شعبوں میں سیاست، دفاع، قانون کا نفاذ اور سرحدوں کی سلامتی، انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی، انسانی حقوق، معاشیات، ثقافت اور تعلیم، اور خلا کے شعبے شامل تھے۔

اِن مذاکرات میں روائتی شعبوں کے ساتھ ساتھ خلا جیسے نئے شعبے بھی شامل تھے۔ یو اے ای نے مستقبل میں چاند اور مریخ پر بھیجے جانے والے مشنوں میں شرکت کے لیے 13 اکتوبر کو آرٹیمس معاہدوں پر بھی دستخط کیے۔

ایران اور دوسرے کرداروں کی طرف سے درپیش دہشت گردی اور دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے، امریکہ اور یو اے ای کا انٹیلی جنس کے بارے میں معلومات کے تبادلے کا منصوبہ ہے۔

پومپیو نے کہا، “ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے یو اے ای نے یہ ثابت کیا ہے کہ اپنے خطے میں آپ  چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ امن اور سلامتی کی سربلندی کے لیے اپنا کام کرے۔”

 صدر ٹرمپ اور دیگر لوگ وائٹ ہاؤس کی بالکونی سے ہاتھ ہلا رہے ہیں (White House/Andrea Hanks)
بائیں سے دائیں، اسرائیلی وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید النہیان 15 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں ابراہیم معاہدوں پر دستخط کرنے کے موقع پر تقریر کرنے کے بعد تصویر کھچوانے کے لیے کھڑے ہیں۔ (White House/Andrea Hanks)

ابراہیم معاہدوں کے ذریعے بحرین اور یو اے ای نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ امریکی تعاون سے ہونے والے اس معاہدے نے علاقائی امن کے منصوبوں کو بڑہانے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔

پومپیو نے 20 اکتوبر کو کہا، “یہ ایک ایسا دلیرانہ قدم ہے جس سے مشرق وسطی اور دنیا بھر میں امن، خوشحالی، اور استحکام کے لیے مزید مواقعے پیدا ہوں گے۔”