کورونا وائرس کی عالمی وباء سے پیدا ہونے والے حالات سے متاثر ہوکر لوگ اپنی اپنی کمیونٹیوں کی مدد کر رہے ہیں۔

اِن مقامی ہیروز میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکہ کے محکمہ خارجہ کے پروگراموں میں شرکت کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنی قائدانہ اور ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ضرورت مندوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی مہمانوں کا قیادتی پروگرام ( آئی وی ایل پی) امریکہ کے مختصر دوروں کے ذریعے موجودہ اور ابھرتے ہوئے غیر ملکی لیڈروں اور اُن کے امریکی ہم منصبوں کے درمیان رابطے پیدا کرتا ہے۔ لندن کی جیسیکا ویڈ (اوپر تصویر میں) آئی وی ایل پی کی ایک پروگرام میں ماضی میں شرکت کر چکی ہیں اور اب وہ ملک کے اندر اور بیرون ملک تبدیلی لانے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے لیے جانی جاتی ہیں۔

برطانوی شہری، ویڈ لندن کے امپیریل کالج میں ماہر طبیعات ہیں۔ وہ صحت کی قومی سروس کے رضاکار خدمت گاروں کے اُس پلیٹ فارم کو فروغ دیتی ہیں اور اُس کے لیے کام کرتی ہیں جو لوگوں کو اُن کی کمیونٹیوں کے کمزور ترین افراد کے ساتھ ملاتا ہے۔

ایک خدمت گار کے طور پر ویڈ خطرات کا سامنا کرنے والے افراد کو دوائیں اور کھانے لاکر دیتی ہیں، قرنطینہ میں رہنے والے ضعیف افراد کی فون پر خیریت معلوم کرتی ہیں اور دیگر افراد کی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اوقات پر ملنے کے لیے جانے کی خاطر ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے مختلف پہلوؤں سے آئی وی ایل پی نے مجھے ایک بہتر فرد بنایا ہے۔ اس دورے کے دوران امریکیوں نے مجھے (معاشرے کو) واپس لوٹانے اور رضاکارانہ کام کرنے کی اہمیت سکھائی۔”

بائیں: حفاظتی آلے کا تھری ڈی پرنٹ۔ دائیں: فاتن خلف اللہ ہاتھ میں قینچی پکڑے الماری کے پاس کھڑی ہیں۔ (Courtesy Faten Khalfallah)
فاتن خلف اللہ (دائیں) تھری ڈی پرنٹنگ مشین کے استعمال سے طبی حفاظتی آلات تیار کرتی ہیں۔ (Courtesy Faten Khalfallah)

فاتن خلف اللہ کا تعلق محکمہ خارجہ کے ٹیک ویمن نامی اُس پروگرام کی سابقہ شرکاء سے ہے جس کے تحت افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والی خواتین لیڈروں کی مدد کی جاتی ہے۔ جب خلف اللہ نے اٹلی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں سنا تو وہ جان گئیں تھیں کہ اب یہ محض تھوڑے وقت کی بات ہے جب یہ وائرس اُن کے ملک تیونس میں بھی پھیل جائے گا۔

اس سے پہلے خلف اللہ “فرسٹ سکلز کلب” نامی ایک غیر منفعتی ادارہ قائم کر چکی تھیں۔ اس ادارے میں تیونس کے نوجوانوں کو موبائل ایپس، روبوٹوں، الیکٹرانکس اور تھری ڈی پرنٹنگ پر کام کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کلب کے تھری ڈی پرنٹر کو استعمال کرتے ہوئے، چہرے پر لگانے والی شیلڈیں اور دیگر حفاظتی آلات تیار کرنے کے لیے خلف اللہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ مسلسل 12 گھنٹوں کی شفٹ میں کام کیا۔ یہ شیلڈیں اور حفاظتی آلات صفاقس کے علاقے میں طبی امداد کے ہراول دستے کے افراد استعمال کریں گے۔

جب انہوں نے 24 مارچ کو کام کا آغاز کیا تو اُن کا ہدف 1,000 شیلڈیں تیار کرنا تھا۔ آج تک، وہ لگ بھگ 2,000 شیلڈیں تیار کر چکی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، “اب میرے سامنے چہرے پر لگانے والی 5,000 شیلیڈیں اور 500 حفاظتی لباسوں کی تیاری کا چیلنج ہے۔”

ایک وین کے پیچھے کھڑے تین آدمیوں نے ڈبے اٹھا رکھے ہیں۔ (Courtesy Elijah Addo)
ایلائی جاہ ادو (درمیان میں) اور “فوڈ فار آل افریقہ” کی کمیونٹیوں کے لیے ہنگامی تیاریوں اور مدد کرنے والی ٹیم کے ارکان۔ Courtesy Elijah Addo)

ایلائی جاہ ادو نوجوان افریقی لیڈروں کے پروگرام (وائی اے ایل آئی) کے قیادت کے علاقائی مرکز کے سابقہ شرکاء میں سے ایک ہیں۔ قیادت کے یہ مراکز کاروباری نظامت کاری کی مہارتوں، سول سوسائٹی کے ساتھ میل جول اور عوامی پالیسیوں کی تربیت دیتے ہیں جس کے تحت نوجوانوں کو اُن کی کمیونٹیوں میں کامیابیوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

ادو ایک ایسے وقت میں کمیونٹیوں کے کمزور ترین افراد کو کھانے تک مسلسل رسائی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کووِڈ-19 نے روزمرہ زندگی کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔

ادو فوڈ فار آل افریقہ (پورے افریقہ کے لیے خوراک) نامی کمپنی کے بانی ہیں۔ کھانا جمع کرنے والی انعام یافتہ یہ کمپنی گھانا بھر میں 5,000 افراد کو کھانا فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے “فوڈ فار آل کووِڈ-19 کمیونٹی ایمرجنسی انٹروینشن” (کووِڈ-19 کے دوران سب کو کھانا دینے کے ایک ہنگامی) پروگرام کا آغاز کیا تاکہ اُن کے ملک میں وائرس سے متاثرہ افراد کی مدد کی جا سکے۔

فروری میں ادو نے کووِڈ-19 کے خطرات کے پیش نظر اُن صورت احوال کی نقشہ کشی کی جن کے دوران گھانا کے کم امدنی والے کمزور شہریوں کو خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ شکاگو میں قائم “گلوبل فوڈ بنک” کے نیٹ ورک، گھانا کی خوراک کی تحریک اور گھانا کی خوراک اور مشروبات کی ایسوسی ایشن کی مدد سے ادو نے 22 مارچ کو اس پروگرام کا آغاز کیا۔

ادو نے بتایا، “وائی اے ایل آئی میں میری تربیت اور مدد کے ساتھ ساتھ امریکہ کی افریقی ترقیاتی فاؤنڈیشن نے بھی بنیادی لیڈر کی حیثیت سے میری انتہائی اہم مدد کی۔ اس سے وہ بنیاد وجود میں آئی جس پر گزشتہ پانچ برسوں میں ہماری طرف سے مرتب کیے جانے والے اثرات کی تعمیر عمل میں آئی۔”