امریکہ کے محکمہ خارجہ کے 230 سال


230 years of American diplomacy logo (State Dept.)


27 جولائی کو امریکہ کا محکمہ خارجہ سفارت کاری کے 230 سال مکمل کرلے گا۔

یہ امریکہ کا سب سے پرانا انتظامی ادارہ ہے۔ اس کا قیام 1789ء میں عمل میں آیا اور تب یہ خارجہ امور کا محکمہ کہلاتا تھا۔ تھامس جیفرسن پہلے وزیر خارجہ تھے۔

آج، وزیر خارجہ مائیک پومپیو دیگر فرائض کے علاوہ، صدرِ مملکت کو مشورے دیتے ہیں، سفارتی مشنوں کا انتظام چلاتے ہیں اور غیرملکی اداروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر مذاکرات کرتے ہیں۔

پومپیو کو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل ہیں۔ محکمہ خارجہ کی 75,000 افراد پر مشتمل افرادی قوت دنیا کے طول و عرض کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں فارن سروس کے تقریباً 15,000، سول سروس کے 10,000 اور اُن ممالک کے 50,000 شہری شامل ہیں جو امریکی سفارت خانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔

اس ٹیم کی ایک رکن کیرول پیریز ہیں۔ چلی میں 2016 سے 2019 تک امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد، وہ محکمہ خارجہ کے ملازمین کے شعبے کی سربراہ بن گئیں۔ پیریز اپنے خیال کے مطابق، امریکی سفارت کاروں کی کامیابی کے لیے لازمی صفات کا احاطہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، “موجودگی اہم ہوتی ہے۔ قیادت اہم ہوتی ہے۔ قابلیت اہم ہوتی ہے۔ اور اقدار اہم ہوتی ہیں۔”

بلغاریہ میں امریکہ کے سفیر اور فارن سروس ملازمین کی ایسوسی ایشن کے سربراہ، ایرک ربین چار براعظموں پر خدمات سرانجام دینے کا موقع ملنے پر شکرگزار ہیں۔ روبین نے اس بات پر زور دیا، “جیسا کہ وزیر خارجہ پومپیو نے کہا ہے [امریکہ] کی فارن سروس کو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہونا چاہیے۔”

یہ متحدہ ٹیم ایک بہت بڑی افرادی قوت پر مشتمل ہے۔ یہ ٹیم امریکی عوام کے لیے کام کرتی ہے اور پیشہ وارانہ خصوصیات پر عمل کرتی ہے۔

Secretary of State Pompeo walking through a crowd of people (© Andrew Harnik/AP Images)
8 جولائی 2018 کو ویت نام کے شہر ہنوئی کے بازار میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو، درمیان میں، پیدل چل رہے ہیں۔ (© Andrew Harnik/AP Images)

ربین کہتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے اُن کے ہموطن امریکیوں کی خوشحالی اور سلامتی میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اس کام کو اپنے لیے انتہائی اطمینان بخش پاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سفارت کاری کا تعلق “اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہماری اقدار آفاقی ہیں، کہ ہم خطرات کو دور رکھتے ہیں اور یہ کہ ہم ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ مسابقت کر سکتے ہیں۔”