امریکہ کے نامور سائنسی جریدے اُن سائنسدانوں کے لیے اعلٰی معیار مقرر کرتے ہیں جو اپنے مقالے شائع کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوتے ہیں اور اس کی معقول وجہ ہے۔ یہ جریدے یہ نہیں چاہتے کہ وہ بری سائنس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا دھوکہ کھائیں۔
جریدے سائنس امیونولوجی (بیماریوں کے خلاف جسمانی دفاع کی سائنس) کی مثال لے لیجیے۔ اس کا شمار اُن جرائد میں ہوتا ہے جن کا جائزہ ہم مرتبہ ساتھی لیتے ہیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی کثیر الموضوعاتی سوسائٹی یعنی سائنس کے فروغ کی امریکی ایسوسی ایشن (اے اے اے ایس) شائع کرتی ہے۔ (نوٹ: فری لانسر کے طور پر میں اے اے اے ایس کے ممبروں کے نیوز لیٹر اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے لکھتی رہی ہوں۔)
سائنس امیونولوجی کے ایڈیٹر، ایفور ولیمز بتاتے ہیں کہ اشاعت کے لیے ہمیں جتنی تعداد میں مقالات موصول ہوتے ہیں ہمارا جریدہ اُس تعداد کا 5 اور 10 فیصد کے درمیان شائع کرتا ہے۔ ولیمز کہتے ہیں کہ اِنہیں دنیا بھر سے اشاعت کے لیے مقالات موصول ہوتے ہیں۔ مقالات بھجوانے والوں کی تعداد کے حوالے سے امریکہ، عوامی جمہوریہ چین، اور یورپ کا شمار پہلے تین نمبروں میں ہوتا ہے۔
ولیمز کہتے ہیں، “بہت سے مقالات کو صرف پڑھا اور اُن کو دیکھا جاتا ہے جس کے بعد ایڈیٹر یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ان کا ہم مرتبہ ساتھیوں کے جائزے کے مرحلے سے آگے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے،” جو کہ اشاعت کے لیے ایک پیشگی شرط ہے۔ جو مصنفین پہلی خواندگی میں کامیاب ہو جائیں تو انہیں اضافی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
بعض اوقات امیونولوجی کے ماہرین کا ایک مشاورتی بورڈ یہ فیصلہ کرنے کی غرض سے کسی مقالے کا جائزہ لیتا ہے کہ آیا یہ مقالہ ہم مرتبہ ساتھیوں کے گہرائی سے جائزہ لینے کے قابل ہے کہ نہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہو تو جریدہ بہت سے ماہرین کو ہم مرتبہ ساتھیوں کے جائزے کی دعوت دیتا ہے اور مصنفین اور متعلقہ جریدے کے نام تحریری تبصرے جاری کرتا ہے۔
جائزہ لینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ایڈیٹروں کو بتائیں کہ آیا مقالے کو شائع کرنے پر غور کیا جائے یا اس میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔ ایڈیٹر سب تبصروں کو اکٹھا کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا مقالہ اشاعت کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں۔ کیا اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے یا اس میں اتنے سارے پیچیدہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے مصنف اسے اشاعت کے قابل بنانے کے لیے اس میں ترامیم نہیں کر سکتا۔
بعض اوقات کسی مقالے کے مصنفین سے معمولی ترامیم کرنے کو کہا جاتا ہے یا ممکن ہے کہ جائزہ لینے والے مصنفین سے یہ کہیں کہ وہ اضافی تجربات کریں تاکہ مصنفین کے بعض تائج کے حق میں مزید شواہد سامنے آ سکیں۔
ولیمز کا کہنا ہے، “حتمی طور پر، ایڈیٹر کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ [جائزہ لینے والوں] کو کہے کہ ایسی چیزوں پر بہت زیادہ اصرار کیا جا رہا ہے جو ایڈیٹر کے خیال میں مناسب نہیں ہے۔”
نظرثانی کی دو چار نشستوں کے بعد، سائنس امیونولوجی کے ایڈیٹر اُس مقالے کو شائع کردیتے ہیں جسے جریدہ پہلے ہی منظور کر چکا ہوتا ہے۔
جب یہ اطلاع دے دی جاتی ہے کہ مقالہ اشاعت کے لیے منظور کر لیا گیا ہے تو اس کے بعد سائنس امیونولوجی کی ڈیٹا کی شفافیت کی پالیسی حرکت میں آ جاتی ہے۔ مصنف/مصنفہ کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ثانوی سپریڈ شیٹ فائل بھجوائے جس میں گرافوں میں استعمال کیا جانے والا ڈیٹا خام شکل میں موجود ہو۔
ولیمز وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خام ڈیٹا دوسرے سائنسدانوں کو ایک مددگار پیشرفت کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے قابل بناتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے، “زیادہ تر ڈیٹا کا ایسے عام کیا جانا بہت ضروری ہوتا ہے جہاں لوگ اس تک رسائی حاصل کر سکیں۔ (یہ پالیسی ایسے حالات میں نافذ نہیں کی جاتی جب ڈیٹا کا جاری کرنا غیراخلاقی ہو۔)
کووڈ-19 سے تعلق نہ رکھنے والے مقالات کے اس عمل میں تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مصنفین کی اپنی تحقیق کی اشاعت کی دوڑ لگی ہوئی ہے، سائنس امیونولوجی نے یہ طریقے اپنے آپ کو اور سائنس کو بچانے کے لیے وضح کیے ہیں۔
ولیمزکہتے ہیں، “لوگ اہم دریافتیں کرنے اور اِن دریافتوں کو شائع کرنے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم مرتبہ ساتھیوں کے جائزے والے کسی جریدے میں مقالے کا چھپ جانا اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم مرتبہ ساتھیوں کے جائزے والے کسی جریدے میں ایسے ہی موضوع پر پہلے کچھ نہیں چھپ چکا تو آپ کسی حد تک اِس موضوع پر ایک بنیادی ذریعہ بن جاتے ہیں۔”
کیا نہیں ہونا چاہیے
اس مہینے کے شروع میں روزنامہ وال سٹریٹ جرنل نے اطلاع دی کہ چین میں موجود 121 مصنفین نے جن کے مقالات ہم مرتبہ ساتھیوں کے جائزوں والے بین الاقوامی جرائد میں چھپ چکے ہیں تصویروں کے ایک مجموعے کو دوبارہ استعمال کیا ہے۔ حالانکہ یہ مقالات ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے محققین اور سائنسدانوں کی تخلیق ہیں مگر اخبار کے مطابق اِن مقالات کے بارے میں امکان ہے کہ وہ ایک ہی کمپنی یا کاغذ کی فیکٹری میں تیار کیے گئے ہیں۔
جب اس طرح کی چیزیں ہوتی ہیں تو بداعتمادی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اس سے محققین کی برادری اور عوام کا نقصان ہوتا ہے۔ برائن نوسیک ریاست ورجینیا کے شہر شارلٹس وِل میں واقع سنٹر فار اوپن سائنس کے شریک بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ نوسیک کہتے ہیں کہ سائنس شفافیت کے ذریعے ترقی کرتی ہے اور ناقدانہ تبصرے تحقیق میں بہتری لاتے ہیں۔
نوسیک کہتے ہیں، “اس طرح کی دھوکہ دہی، گمراہ کن یا غلط طرز عمل سے پورے نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔”