
وزیر محنت، ایلکس ایکوسٹا محنت اور انسانی حقوق کے معاملات کے ایک ماہر وکیل ہیں۔ وہ کامیابی کی امریکی کہانی کی ایک روشن مثال ہیں۔
ایکوسٹا کا پیشہ وارانہ سفر عام سی شروعات سے لے کر ایک مشکل پیشے کی انتہا تک پہنچنے کی ایک کہانی ہے۔ وہ اِس کا سہرا اپنے والدین کے سر باندھتے ہیں جنہوں نے گزر اوقات کے لیے سخت محنت کی اور تعلیم میں شاندار کارکردگی دکھانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کی۔
میامی کے رہنے والے ایکوسٹا کیوبائی تارکین وطن کے بیٹے ہیں۔ وہ تارکین وطن کی امریکہ میں جوان ہونے والی پہلی نسل کے ایسے کالج گریجوایٹ ہیں جو 17 برس کی عمر میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ بیچلر اور قانون کی ڈگریاں ہارورڈ سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیموئل آلیٹو نامی جج (جو آج کل سپریم کورٹ کے جج ہیں) کی عدالت میں کلرک کے طور پر کام کیا۔
ایکوسٹا نے ملازمت اور محنت سے متعلق مسائل پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے، ایک وکیل کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے ملازمت سے متعلق قانون، معذوریوں کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف قانون اور انسانی حقوق کا قانون پڑھایا۔
انہیں 2005 میں فلوریڈا کے جنوبی ڈسٹرکٹ کے لیے امریکہ کا سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔ انہوں نے منشیات کے ‘کالی’ نامی گروہ پر کامیابی سے مقدمہ چلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بدعنوانی، مالی جرائم اور صحت کے شعبے میں دھوکہ دہی پر توجہ مرکوز کی۔
2016 میں امریکہ کے وزیر محنت کا حلف اٹھانے سے ایک سال قبل، ایکوسٹا امریکہ کے محکمہ انصاف کے انسانی حقوق کے ڈویژن کے پہلے ہسپانوی نژاد سربراہ بنے۔ اپنی اِس حیثیت میں انہوں نے انسانی سمگلنگ کے خلاف جدوجہد کی اور امریکہ کے کئی شہروں میں انسانی سمگلنگ کے خلاف مہموں کا آغاز کیا۔
گہری جڑیں
ایکوسٹا کو ‘ ہسپینک بزنس‘ نے امریکہ میں 50 سب سے زیادہ با اثر ہسپانویوں میں شمار کیا۔ وہ اپنے آبا و اجداد کو نہیں بھولے۔ اُنہیں یاد ہے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو اُن کی دادی انہیں ہسپانوی زبان کیسے پڑھایا کرتی تھیں۔ اپنے موجودہ عہدے کی توثیق کے دوران انہوں نے ہسپانوی تارکین وطن کی اولاد ہونے کے اپنے پس منظر کو اجاگر کیا۔
ایکوسٹا کہتے ہیں، ” میرے والدین آزادی کی تلاش میں کیوبائی ڈکٹیٹر شپ سے بھاگے۔ جوان ہوتے ہوئے میں نے اپنے والدین کو جدوجہد کرتے دیکھا۔ … آج میں یہاں اُن کی وجہ سے ہوں۔ میری کامیابی ان کی کامیابی ہے۔ اُن کی کامیامبی اور اُن کی مستقل مزاجی کی وجہ سے میری تعلیم ممکن ہو سکی۔”