تاراس شیوچینکو کو اپنی شاعری، مصوری اور قوم سے محبت کی وجہ سے یوکرین میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے زاروں کے روس میں یوکرینی سالمیت کی حمایت میں اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی سال قید میں گزارے۔
1960 میں امریکی کانگریس نے اس شاعر اور حریت پسند جنگجو کی 150ویں سالگرہ منانے کے لیے واشنگٹن میں شیوچینکو کا ایک مجسمہ تیار کرنے کی منظوری دی۔ صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اس قانون پر دستخط کیے اور اپنی مدتِ صدارت ختم ہونے کے چار برس بعد وہ وائٹ ہاؤس سے ایک میل کے فاصلے پر واقع اس مجسمے کو شیو چینکو کے نام منسوب کرنے کی تقریب میں شرکت کی۔
آئزن ہاور نے شیوچینکو کی تعظیم کے لیے جمع ہونے والے لوگوں سے کہا، “آپ امریکہ کے طول و عرض سے ہزاروں کی تعداد میں آئے ہیں؛ آپ ایک ایسے شاعر کی یاد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کینیڈا، لاطینی امریکہ اور یورپ اور آسٹریلیا جیسے دور دراز ملک سے آئے ہیں، جس نے انتہائی فصاحت کے ساتھ حتمی فتح کے لیے لڑنے کی خاطر اپنے لازوال عزم کا اظہار کیا تھا۔”
انسانی حقوق کے ‘صلیبی جنگجو’
کانسی کے مجسمے کے متعلق تحریر میں لکھا ہے کہ یہ مجسمہ “[دنیا] کی تمام مجبوراقوام کی آزادی، حریت اور خود مختاری کے نام وقف” ہے۔ اس مجسمے کی دیکھ بھال امریکہ کی نیشنل پارک سروس کرتی ہے۔
صدر لنڈن جانسن نے 1964 میں مجسمے کی نقاب کشائی کے موقع پر یوکرینی رہنما کی تعریف کی۔ انہوں نے شیوچینکو کو انسانوں کے حقوق اور آزادی کا “صلیبی جنگجو” کا نام دیا۔
جانسن نے کہا، “شیوچینکو اُن اعزازات کے مستحق ہیں جو انہیں دیے گئے ہیں۔ وہ ایک یوکرینی ہونے سے بڑھکر بہت کچھ اور بھی تھے- وہ ایک مدبر اور دنیا کے شہری تھے۔”

شیوچینکو (1814–1861) کو جدید یوکرینی ادب کا بانی اور قوم کے ضمیر کو آواز دینے والا سمجھا جاتا ہے۔ وہ شاعر، مصور اور آزادی پسند شخصیت تھے۔
وہ غلامی میں پیدا ہوئے اور 11 برس کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ شیو چینکو کی فنی صلاحیتیں دیکھنے کے بعد اُن کے ساتھی دانشوروں نے 1838 میں انہیں اپنی آزادی خریدنے میں مدد کی۔
ان کی نظموں میں یوکرین کی تاریخ کی مشکلات، بالخصوص مزدوروں اور کسانوں کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ‘ کوبزار’ 1840 میں شائع ہوا۔
شیوچینکو کی تحریروں نے یوکرین کے لوگوں کو آزادی کے خواب دیکھنے کی ترغیب دی جبکہ اِن تحریروں سے سنسرشپ کے روسی عہدیدار ناراض ہوئے۔
جب انہوں نے روسی زاروں کے ہاتھوں یوکرینی باشندوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا تفصیلی ذکر کیا تو حکام نے اُن کی تحریروں کو سنسر کرنا شروع کر دیا۔ ان کی زندگی میں ان کی چند ایک نظمیں شائع ہوئیں۔ روس نے یوکرینی زبان کے استعمال کو دبا دیا۔

شیوچینکو نے لکھا، “میری زندگی کی تاریخ، میرے وطن کی تاریخ ہے۔”
شیوچینکو کے تخلیقی کام کو دبانے کے لیے روسی حکام نے انہیں گرفتار کیا، بغیر مقدمہ چلائے جلاوطن کیا اور 1847 میں فوجی ملازمت پر مجبور کیا۔ انہیں 10 سال تک رہا نہیں کیا گیا۔ زار نکولس اول نے انہیں مزید لکھنے یا مصوری کرنے سے منع کر دیا۔
اپنی جلاوطنی کو “دروازوں کے بغیر جیل” قرار دیتے ہوئے شیوچینکو نے پابندی کے باوجود شاعری اور مصوری جاری رکھی۔ 1857 میں جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد، انہوں نے اپنے مشہور ترین فن پارے اور پورٹریٹ بنائے۔
1859 میں شیوچینکو کو یوکرین جانے کی اجازت ملی۔ لیکن انہیں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے سینٹ پیٹرزبرگ بھیج دیا گیا جہاں 1861 میں وہ 47 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انہیں کنیئو، یوکرین کے قریب دریائے نیپر کے کنارے چرنیچا ہل جسے اب تاراس ہل کہا جاتا ہے، میں دفن کیا گیا۔
شیوچینکو کو خراج تحسین پیش کرنے والے امریکی شہر
ہرسال مارچ کے مہینے میں یوکرینی باشندے شیوچینکو کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس عظیم فنکار کو مختلف طریقوں سے بہت سے خراج تحسین پیش کیے گئے ہیں.
نیو یارک شہر کے ایسٹ ویلیج کی ایک گلی کو تاراس شیوچینکو پلیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گلی یوکرین کے میوزیم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ 2014 میں اس میوزیم نے شیوچینکو کی 200 ویں سالگرہ کے موقع پرایک نمائش کی میزبانی کی جس کا عنوان “تاراس شیوچینکو: شاعر، مصور، مشہور شخصیت” تھا۔ اس کے علاوہ سینٹ جارج یوکرینی چرچ، یوکرینی سپورٹس کلب اور یوکرینی ریستورا ن بھی تاراس شیوچینکو پلیس سے زیادہ دور نہں۔
شیو چینکو کو خراج تحسین پیش کرنے والے امریکی مقامات میں مندرجہ ذیل بھی شامل ہیں:-
- کلیو لینڈ کے یوکرینی گارڈن میں شیو چینکو کے اوپر والے دھڑ کا مجسمہ موجود ہے۔
- ڈیٹرائٹ کے آرٹس کے انسٹی ٹیوٹ میں شیو چینکو کا یوکرینی نژاد امریکی آرٹسٹ، الیگزینڈر آرچیپینکو کا سرخ مٹی سے بنایا گیا رنگدار مجسمہ بھی موجود ہے۔
- نیوجرسی کے یوکرینی امریکی ثقافتی مرکز نے گزشتہ برس شیو چینکو اور یوکرین کی تحریک نسواں کی پہل کار سمجھی جانے والی، لیسیا یوکرینکا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک ورچوئل کنسرٹ کا انعقاد کیا۔
- فلا ڈیلفیا میں ایک چھوٹا سا پارک شیو چینکو کے نام سے منسوب ہے۔
- یوکرین کے سان ڈیاگو ہاؤس نے 2016 میں ایک نمائش کی میزبانی کی۔
شیوچینکو کے بہت سے فن پارے اور ان کے بارے میں کتابیں واشنگٹن میں واقع دنیا کی سب سے بڑی لائبریری، لائبریری آف کانگریس میں موجود ہیں۔
شیوچینکو کا ایک قول پٹسبرگ یونیورسٹی کے کیتھیڈرل آف لرننگ کے یوکرینی کمرے کی چھت میں نصب مرکزی بیم پر کندہ ہے۔ اس میں لکھا ہے، “میرے بھائیو، سیکھو! سوچو اور پڑھو… غیر ملکی خیالات کے بارے میں جانو، مگر اپنے ملک سے دور نہ ہونا۔”
