2022 مسلسل تیسرا سال تھا جب امریکہ کے لوگوں نے امریکی زندگی میں مرکزی حیثیت رکھنے والی سخاوت کی روائت کو برقرار رکھتے ہوئے خیراتی کاموں کے لیے تقریباً نصف کھرب ڈالر سے زائد کے عطیات دیئے۔
کووڈ-19 وبا کے نتیجے میں لگنے والے اقتصادی جھٹکوں اور بازار حصص میں گراواٹ اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود سال 2022 میں امریکی عطیات دہندگان نے 499.33 ارب ڈالر کے عطیات دیئے۔ اِن عطیات کے ذریعے امریکیوں نے اپنے ہموطنوں کے علاوہ دنیا بھر میں کیے جانے والے خیراتی کاموں میں اور آفات زدہ علاقے کے لوگوں کی مدد بھی کی۔
جوش برکہولز امریکی خیراتی ادارے ‘گیونگ یو ایس اے فاؤنڈیشن’ کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے 20 جون کو اانڈیانا یونیورسٹی کے لِلی فیملی سکول آف فلانتھراپی’ (آئی یو پی یو آئی) کے ڈیٹا پر مبنی “انسان دوستی کی سالانہ رپورٹ” کے اجرا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “معیشت کی اس غیریقینی صورت حال کے باوجود امریکیوں نے اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ وہ غیرمنفعتی شعبے کو اور بڑَے مسائل کو حل کرنے کی اِس [شعبے] کی اہلیت کو بہت زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔”

یونا اوسیلی آئی یو پی یو آئی کے تحقیقی اور بین الاقوامی پروگراموں کی ایسوسی ایٹ ڈین ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کے دینے کے جذبے کی بنیاد جزوی طور پر سماجی مسائل کو حل کرنے سے جڑا اُن کا عزم ہے۔ یہ ایک ایسی قدر ہے جو مختلف پسہائے منظر اور آمدنیوں کے حامل امریکیوں کو متحدہ کرتی ہے۔
اوسیلی کہتی ہیں کہ “امریکہ ایک بالکل منفرد ملک ہے۔ اگر آپ ایک فرد ہیں اور آپ کوئی ایسا مسئلہ دیکھتے ہیں جسے حل کرنے کی ضرورت ہے تو آپ”اسے حل کرنے کے لیے “کوئی غیرمنفعتی ادارہ بنا سکتے ہیں۔”
بعض اندازوں کے مطابق امریکہ میں ایک ملین سے زائد خیراتی ادارے موجود ہیں۔ امیریکور اور مردم شماری کے بیورو کے مطابق کووڈ-19 وبا کے دوران 16 برس یا اس سے زائد عمر کے 61 ملین امریکیوں نے جو کہ مجموعی آبادی کا 23 فیصد بنتے ہیں کسی نہ کسی تنظیم کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا۔
دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے کے لیے لوگوں کو متحرک کرنے کی خاطر اقوام متحدہ 5 ستمبر کو خیراتی اداروں کا عالمی دن مناتی ہے۔ کئی حالات میں اور خاص طور پر کسی بحران کے وقت، امریکیوں کی مسائل حل کرنے کی خواہش انہیں بیرونی ممالک کے لیے عطیات دینے تک لے جاتی ہے۔

امریکہ کا تارکین وطن کا مالامال ورثہ بھی خیراتی کاموں کے لیے عطیات دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اوسیلی اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ “تارکین وطن بالعموم اپنے آبائی ممالک کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھتے اور وہاں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں۔” اس وقت دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار(پی ڈی ایف، 895 کے بی) کے مطابق سال 2020 میں امریکیوں نے بیرونی ممالک کے لوگوں کے لیے لگ بھگ 50 ارب ڈالر کے عطیات دیئے۔
جب فروری میں جنوب مشرقی ترکیہ اور شمالی شام میں زلزلہ آیا تو اس کے بعد کے پہلے دو ہفتوں میں امریکہ کے نجی شعبے نے 66 ارب ڈالر کے عطیات دیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں نے انفرادی طور پر کھانے پینے کی اشیا، کپڑے، بچوں کی ضرورت کی اشیا اور دیگر ضروری سامان بھی عطیے کے طور پر بھجوایا۔
اوسیلی بتادتی ہیں کہ 2022 میں امریکہ میں “بین الاقوامی حوالے سے عطیات دینے میں ایک بڑا اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا” جب امریکی عطیات دہندگان نے روس کی یوکرین کے خلاف جنگ سے بےگھر ہونے والوں کی اور پاکستان میں آنے والا تباہکن سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد کی۔”
وہ کہتی ہیں کہ “یہ [سب کچھ] ہماری سماجی، شہری اور اقتصادی زندگی کا حصہ ہے۔ ہمارے معاشرے کے کسی ایسے طبقے کا تصور کرنا بھی مشکل ہے جس میں انسانی بھلائی کا جذنہ نہ پایا جاتا ہو۔”