
امریکہ بیرون ملک پناہ گزینوں کی اس وقت تک مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ محفوظ طریقے سے رضاکارانہ طور پر اپنے ملکوں میں نہ جا سکتے ہوں۔ اس کام میں امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
امریکہ زیادتیوں اور جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کو پناہ دینے کی پرانی روایت کا امین بھی ہے۔
پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر شیئر امریکہ بہت سے پناہ گزینوں میں سے چند ایک ایسے پناہ گزینوں کو نمایاں کر رہا ہے جنہوں نے امریکیوں کی حیثیت سے اپنا آپ منوایا۔

میڈیلین البرائٹ 1997ء میں امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بنیں۔ چیک سفارت کار کی یہ بیٹی دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنے خاندان کے ہمراہ چیکو سلواکیہ سے جان بچا کر انگلینڈ چلی گئیں۔ نازی جرمنی کی شکست کے بعد وہ چیکو سلواکیہ واپس آ گئیں۔ تاہم انہیں اپنے ملک پر کمیونسٹوں کے قبضے کی وجہ سے دوبارہ بھاگنا پڑا۔ مگر اس مرتبہ وہ امریکہ آئیں۔ جب وہ 1948ء میں ایلس آئی لینڈ پہنچیں تو اُن کی عمر 11 برس تھی۔

گوگل کے شریک بانی سیرگے برن کی عمر اس وقت 6 برس تھی جب وہ اور ان کے اہل خانہ سوویت یونین میں بڑھتی ہوئی یہود دشمنی سے بچنے کے لیے ترک وطن کرکےامریکہ آ گئے۔

سابقہ وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور اُن کے اہل خانہ 1938ء میں نازی جرمنی سے بھاگ کر نیویارک آ گئے۔ کسنجر نے انگریزی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ایک فیکٹری میں بھی کام کیا۔ امریکی شہری بننے کے بعد انہوں نے دوسری عالمی جنگ میں پہلے فوج کے پیدل دستے میں اور بعد میں انٹیلی جنس افسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

10 برس کی عمر میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ آنے والی مصنفہ لونگ اونگ، کھمیر روژ حکومت کے دور میں فاقوں، کڑی مشقتوں، بیماریوں، بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں سے اپنی جان بچا کر کمبوڈیا سے بھاگیں۔ موت کا شکار ہونے والوں میں اُن کے والدین، دو بہنیں اور کم از کم 20 رشتہ دار شامل تھے۔۔

فیڈل کاسترو کے دورِ حکومت میں ناول نگار رینالڈو ایریناس پر اُن کی ہم جنس پرستی کی وجہ سے زیادتیاں کی گئیں۔ کاسترو حکومت نے ان کی تحریروں پر پابندی لگا دی۔ وہ 1980ء میں ماریئل اجتماعی ہجرت کے دوران کیوبا سے فرار ہوئے اور ترک وطن کرکے امریکہ آئے۔