امریکیوں کی رضاکارانہ خدمات کے بارے میں نمائش

ریاستہائے متحدہ امریکہ رضاکاروں کا ملک ہے۔ لائبریری آف کانگریس میں ہونے والی ایک نئی نمائش میں امریکہ کی 45 رضاکارانہ تنظیموں کے کام کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس نمائش کا عنوان “شامل ہوئیے:امریکہ میں رضاکار انجمنیں” ہے۔ اِس نمائش میں عوام کا نادار افراد کی مدد کرنے، ہنگامی حالات سے نمٹنے اور کمیونٹیوں کی تعمیر کرنے کے لیے لوگوں کے مل کر کام کرنے کی روائت پر ایک تفصیلی نظر ڈالی گئی ہے۔ کارنگریس کی لائبریرین، کارلا ہیڈن نے کہا کہ “امریکیوں کی حیثیت سے کسی مشترکہ مقصد کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنا اور متحد ہونا ہمارے خون میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے مختلف قسم کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔”

میز پر پڑے پمفلٹس (Shawn Miller/Library of Congress)
الیکسس دو ٹوک وِل کی کتاب “امریکہ میں جمہوریت” میں امریکیوں کی انجمن سازی کی عادات اور اِن کے جمہوریت کے ساتھ تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔ (Shawn Miller/Library of Congress)

امریکہ میں جمہوریت کے عنوان کے تحت فرانسیسی  فلاسفر اور سفارت کار الیکسس دو ٹوک وِل کہتے ہیں کہ امریکی جمہوریت میں شہریوں کی شرکت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نمائش کے منتظم نیتھن ڈورن کے مطابق یہ نمائش ٹوک وِل کی تحریر سے متاثر ہو کر منعقد کی گئی ہے۔

اندرون ملک رضاکارانہ کاموں کو منظم کرنے والے وفاقی ادارے امیریکور [پی ڈی ایف، 233 کے بی] کے مطابق “جمہوریت میں شرکت، امریکی معاشرے اور تہذیب میں رضاکاریت اور قومی خدمت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔”

ڈورن کے اندازے مطابق امریکہ میں ایک ملین سے زائد خیراتی ادارے ہیں۔ امیریکور اور امریکہ کے مردم شماری کے بیورو کے مطابق 16 برس یا اس سے زائد عمر کے 61 ملین یعنی امریکی آبادی کے 23 فیصد حصے نے کسی نہ کسی  تنظیم یا ایسوسی ایشن کے لیے کورونا کی حالیہ وباء کی انتہا کے دوران کوئی نہ کوئی رضاکارانہ کام کیا۔ اس عرصے کے دوران 51 فیصد بالغ افراد نے غیر رسمی طور پر اپنے پڑوسیوں کی مدد کی۔

کتابیں اور بورڈ پر بنجمیں فرینکلن کی تصویر اور نمائش کا تعارف (Shawn Miller/Library of Congress)
بنجمن فرینکلن نے پینسلوینیا میں رضاکاروں کو منظم کیا اور یونین فائر کمپنی، فلاڈیلفیا کی لائبریری کمپنی اور آج کی پینسلوینیا یونیورسٹی بنائی۔ (Shawn Miller/Library of Congress)

رضاکار تنظیمیں ملک کے وجود میں آنے سے بھی پہلے سے امریکی تانے بانے کا حصہ چلی آ رہی ہیں۔ جب برطانیہ نے برطانوی نوآبادیات کو آگ بجھانے والے آلات فراہم کیے تو بانی [امریکہ] بنجمن فرینکلن نے 1736 میں فلا ڈیلفیا میں فائر فائٹنگ [آگ بجھانے والوں کی] ایک رضاکار کمپنی تشکیل دی۔ اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی یونین فائر کمپنی موجودہ دور کے فائر فائٹرز کی پیشرو ثابت ہوئی۔ امریکہ کے 75 فیصد فائر فائٹررضاکار ہیں۔

ڈورن کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر امریکیوں کو جب بھی نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے عموماً اس کا مقابلہ رضاکارانہ انجمنوں کے ذریعے کیا۔ اس کی ایک مثال 1833 میں غلامی کے خاتمے کے لیڈروں کی طرف سے انسدادِ غلامی کے لیے بنائی جانے والی “امریکن اینٹی سلیوری سوسائٹی” تھی جس نے غلام بنائے گئے لوگوں کو ہر قسم کی غلامی سے آزادی دینے پر زور دیا۔ ان لیڈروں میں ایک اخبار کے پبلشر اور سماجی مصلح، ولیم لائڈ گیریسن بھی شامل تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے ایک ماہانہ پمفلٹ شائع کرکے، لیکچرون کی سرپرستی کرکے اور کپاس اور غلاموں سے تیار کروائی جانے والی دیگر مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کرکے غلاموں کو آزاد کرنے پر زور دیا۔

(کانگریس کی طرف سے تیرھویں ترمیم کی توثیق کے پانچ سال بعد غلامی کا خاتمہ کرنے والی یہ سوسائٹی تحلیل ہوگئی۔)

پھولوں کی پتیوں سے بنائے گئے روٹری انٹرنیشنل کے امتیازی نشان کا پریڈ میں شامل فلوٹ (Library of Congress)
کیلی فورنیا میں 2013 کی مختلف قسم کے گلابوں کے پھولوں کی پریڈ میں روٹری انٹرنیشنل کے فلوٹ میں دنیا کے دائمی مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی۔ (Library of Congress)

جب پال ہیرس نے 1905 میں شکاگو کے روٹری کلب کی بنیاد رکھی تو اُن کا مقصد مختلف پسہائے منظر کے حامل پیشہ ور افراد کو باہم ملانا تھا تاکہ وہ تاحیات دوستیاں بنا سکیں اور خیالات کا تبادلہ کر سکیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے روٹری انٹرنیشنل آج دنیا بھر میں پھیلے 1.4 ملین افراد کی ایک بہت بڑی انسانی تنظیم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ تنظیم جن نصب مقاصد کے لیے کام کر رہی ہے اُن میں ماحولیات کا تحفظ، بیماریوں کا خاتمہ، ترقی کرتی ہوئی مقامی معیشتیں اور یوکرینی پناہ گزینوں کی مدد  بھی شامل ہے۔

گھنٹی بجاتی اور بالٹی میں سکے جمع کرنے والی عورت کی تاریخی تصویر (Shawn Miller/Library of Congress)
غربت کے خاتمے اور حضرت عیسٰی کی تعلیمات کے فروغ کے لیے ‘سالویشن آرمی’ نے امریکہ میں 1860 میں اپنی پہلی برانچ کھولی۔ آج یہ تنظیم دنیا کے 130 ممالک میں کام کر رہی ہے۔ (Shawn Miller/Library of Congress)

‘ووپاناگ زبان کی بحالی کے پراجیکٹ’ کا عملہ ویمپاناگ قوم کے قبائل سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ یہ رضاکار امریکہ کی ریاست میساچوسٹس کے مغربی حصے کے علاقوں میں سو سال سے زیادہ عرصہ قبل بولی جانے والی اپنی زبان کے احیائے نو کا کام کر رہے ہیں۔ ماہر لسانیات جیسی لٹل ڈو بیرڈ نے 1993 میں یہ پراجیکٹ شروع کیا تھا۔ اس کے تحت ایک سکول میں بچوں کو تمام مضامین اسی زبان میں پڑہائے جاتے ہیں اور ویمپاناگ کمیونٹی کے افراد کے لیے اس زبان کی کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اِس زبان میں لکھی گئیں دستاویزات اور 360 سال پرانی وہ بائبل آج بھی تحریری شکل میں موجود ہیں جسے اجتہاد پسند مشنری، جان ایلیٹ نے شائع کیا۔

امریکہ کی رضاکار تنظیموں نے سکول اور ہسپتال قائم کیے، یتیم بچوں کے لیے خیراتی ادارے بنائے، سکولوں کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے کھانے کی چیزیں بیچیں اور خون کے عطیات کی مہمیں چلائیں۔ انہوں نے پسماندہ گروہوں کے شہری حقوق کو فروغ دیا اور امریکہ کو اُن کے رہنے کے لیے ایک اچھا ملک بنایا۔ اس ضمن میں انہوں نے بعض اوقات قانون سازی میں اپنا کردار بھی ادا کیا۔

ڈورن نے کہا کہ “اس ملک میں لوگ اس قابل ہیں کہ وہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ [یہاں] لامحدود امکانات پائے جاتے ہیں۔”