شیئر امریکہ کے لیے یہ مضمون شاعرہ ایلزبتھ الیگزینڈر نے تب لکھا تھا جب وہ ییل یونیورسٹی میں افریقن امریکن سٹڈیز کے شعبے کی سربراہ ہوا کرتی تھیں۔ آج کل وہ فن اور ثقافت کی سب سے زیادہ فنڈنگ کرنے والی تنظیم، اینڈریو ڈبلیو میلن فاؤنڈیشن کی صدر ہیں۔
سینکڑوں سالوں سے امریکی یہ کہنے کے لیے سڑکوں پر نکلتے چلے آ رہے ہیں، “یہ ہے وہ جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ہماری بات سنی جائے۔” سڑک حکومت کی تین شاخوں سے باہر ایک اجتماعی آواز کی حیثیت سے اس امر کا ایک لازمی حصہ ہے کہ تقریر کی آزادی کے استعمال کا کیا مطلب ہے اور اتفاق سے کھڑا ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ہمیں یہ بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی حکومت کے ساتھ متفق یوتے ہیں اور اس سے خوش ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سوالاتپوپوچھیں۔

اس طرح کے امریکی اجتماعات کی سب سے بڑی علامت واشنگٹن میں اگست 1963 میں ہونے والا مارچ تھا۔ امریکہ میں انسانی حقوق کے لیے نکلنے والی سب سے بڑی ریلیوں میں شمار ہونے والی اس ریلی کے بارے میں ذرا تصور کریں۔ اکٹھے ہونے والے تمام لوگ درحقیقت یہ کہنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ ہم ہر ایک کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئرایک شاندار، باعمل اور باصلاحیت مقرر تھے۔ بہت سے امریکی اُن کی قائل کرنے والی تقریر کی گونج دار آواز کے زیر و بم کو بڑی آسانی سے یاد کر سکتے ہیں۔ ہمیں ہر جملے کے آخر میں “میرا ایک خواب ہے” دہرانا یاد ہے۔ مگر اُن کی نقریر کے دیگر حصے بھی ہیں جو اتنے ہی اہم ہیں اور جو ترقی کے حقیقی تصور کے اہم اجزا ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہمیں ہر صورت میں اپنی جدوجہد وقار اور نظم کی بلندیوں پر رہ کر کرنا چاہیے۔ ہمیں کسی بھی صورت میں اپنے تخلیقی احتجاج کو جسمانی تشدد کی تنزلی میں نہں گرنے دینا چاہیے۔”

میرے والدین مجھے بچہ گاڑی میں بٹھا کر مارچ میں لے کر گئے۔ کاش میں سچ مچ یہ کہہ سکتی کہ مجھے تفصیلات یاد ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ مجھے پتہ نہیں ہے مگر بڑا ہونے کے پورے عرصے کے دوران یہ (تقریر) میرے خاندان کا بنیادی پتھر بنی رہی۔ ہر بار اس (تقریر) کی کہانی سناتے ہوئے میرے والدین کہا کرتے تھے، “آپ کبھی بھی اتنے چھوٹے نہیں ہوتے کہ مارچ نہ کرسکیں۔” یہ ایک قابل فخر بات ہے۔
احتجاج کے دوران، ہم در حقیقت اپنے اتحاد اور اپنے امریکی پن کی ایک انتہائی اہم جہت کا اعلان کرتے ہیں۔
یہ مضمون 18 جون 2020 کو ایک بار پہلی بھی شائع کیا جا چکا ہے۔