امریکی طرز کا فٹ بال 13 فروری کو لاکھوں لوگوں کے ذہنوں اور ٹیلی ویژن سیٹوں پراُس وقت چھایا ہوگا جب سپر باؤل کی 56ویں چیمپئن شپ گیم کا آغاز ہوگا۔ اس سال سنسناٹی کی بینگلز نامی ٹیم کا مقابلہ لاس اینجلیس کی ریمز نامی ٹیم سے ہوگا۔ یہ میچ جنوبی کیلی فورنیا میں ریمز کے سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔
گو کہ یہ شاندار ماضی کی حامل کھیل کا ایک اہم موقع ہوتا ہے، تاہم سپر باؤل عملی طور پر ایک ثقافتی تہوار بھی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں اُن لوگوں کو بھی خاندان یا دوستوں کے ساتھ یہ میچ دیکھنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جو اس کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ گھر پر یا شاید کسی ریستوراں یا سپورٹس بار میں کھیل دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں جہاں مصالحے لگے ہوئے چٹ پٹی چٹنی کے ساتھ مرغی کے پر یا چھوٹے چھوٹے سلائیڈر کہلانے والے سینڈ وچ کھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چپس اور مختلف قسم کے پنیر سے بنائی جانے والی چٹنیاں، کریم اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا بھی کھائی جاتی ہیں۔ یہ سب کھانے “فنگر فوڈ” کہلاتے ہیں۔

سنسناٹی سے تعلق رکھنے والے فٹبال کے ایک “بہت بڑے” پرستار، 51 سالہ چیز چیسک کہتے ہیں، “میں یہ دیکھ کر بہت زیادہ جذباتی ہوں کہ میرا پورا شہر انتہائی متحرک ہے۔ ہر ایک چیز نارنجی رنگ میں نہائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ شہر کے میئر کوچ کے دستخط شدہ فٹبال باہر نکل کر بذات خود تقسیم کر رہے ہیں۔” یاد رہے کہ بینگلز ٹیم کا رنگ نارنجی ہے۔
لاس اینجلیس ریمز کی ٹیم چار سپر باؤلز کھیل چکی ہے۔ وہ حالیہ ترین چیمپئن شپ جو ہاری ہے وہ 2019 کی چیمپیئن شپ تھی۔ لیکن اس سے پہلے وہ 2000 میں یہ چیمپئن شپ جیت چکی ہے۔ بنگلز کی ٹیم نے کبھی بھی سپر باؤل نہیں جیتا۔ اس سال کیونکہ یہ ٹیم چیمپئن شپ کی فائنل گیم میں پہنچ چکی ہے اس لیے 309,000 افراد کی آبادی والا یہ وسط مغربی شہر جشن منانے میں حق بجانب ہے۔
کیوں؟ چہ جائیکہ بنگلز کو سپر باؤل تک پہنچنے کے لیے تین پلے آف گیمز جیتتی، اسے کوئی پلے آف گیم جیتے ہوئے 31 سال بیت چکے ہیں۔ کھیلوں کے اعلان کرنے والوں نے بنگلز کے عروج کو “سنڈریلا کی ایک کہانی” قرار دیا ہے۔
چیسک کہتے ہیں، “یہ شہر انتہائی خوش ہے۔”
کھیل کے بنیادی اصول
امریکی فٹبال کو روائتی فٹبال سے نہیں ملانا چاہیے۔ روائتی فٹبال کو امریکہ میں “ساکر” کہتے ہیں۔ امریکی فٹ بال جسمانی طور پر ایک انتہائی مشقت طلب کھیل ہے۔ اس میں ہر ایک کھلاڑی حفاظتی لباس پہنتا ہے اور کھیل کی پیچیدہ چالیں چلنے کے لیے ٹیم میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کھیلتا ہے۔ اس کے قوانین نیشنل فٹبال لیگ کی قانون کی کتاب کے 73 صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم عام طور پر گول کرنے والی ٹیم کو بیضوی شکل کے گیند کو لے کر 100 گز لمبے میدان (تقریباً 90 میٹر) کے آخری سرے تک یا تو دوڑنا یا پاس دینا ہوتا ہے تاکہ وہ “ٹج ڈاؤن یا “فیلڈ گول” کر سکے۔
دفاعی ٹیم گول کرنے کی کوشش کو ناکام بناتی ہے۔ اس کے لیے وہ گیند والے شخص کو روکتی ہے یا گیند پھینکے جانے کے بعد اسے درمیان میں اُچک لیتی ہے۔ اس کھیل میں “فرسٹ ڈاؤن،” “پینالٹیاں،” سیقس” اور “کیچ چھوڑنا”ایک لمحے میں کھیل کا پانسہ بدل سکتے ہیں۔ حیرت کا یہ عنصر کھیل میں دلچسپی کی وجہ بیان کرتا ہے۔

امریکن فٹبال کے کوچوں کی فاؤنڈیشن کے مطابق، چین، برازیل، آسٹریا اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی اب امریکی فٹ بال پروان چڑھ رہا ہے۔ مذکورہ ممالک میں 45,000 کھلاڑی لگ بھگ 450 ٹیموں کے لیے کھیلتے ہیں۔
لیکن یہ کھیل چیسک جیسے امریکیوں کے لیے خصوصی کشش رکھتا ہے۔ چیسک ریاست میسا چوسٹس میں بوسٹن کے شمال مغرب میں تقریباً 40 میل دور “ایک پریشان بچے” کے طور پر پلے بڑھے۔ چیسک کا کہنا ہے کہ جب تک انہوں نے اپنی ثانوی سکول کی ٹیم کے لیے کوشش نہیں کی اس وقت تک ان کا وزن زیادہ تھا اور وہ بے سمت تھے۔ اس کھیل نے اِنہیں وہ نظم و ضبط اور کردار عطا کیا جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لیے اُنہیں اِس کی ضرورت تھی۔ بالآخر، وہ اپنے سکول کی ٹیم کے کپتان بنے۔ چیسک بتاتے ہیں، “مجھے اس [فٹبال] سے پیار ہو گیا ہے۔ یہ کہنا مذاق نہیں ہوگا کہ ہو سکتا ہے اس نے میری جان بچائی ہو۔”
چیسک سنسناٹی میں رہتے ہیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلز اُن کی پسندیدہ ٹیم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسا”نہیں” ہے۔ “میں [نیو انگلینڈ] پیٹریاٹس کا مداح ہوں۔” چونکہ ان کے ایسے دوست ہیں جو بنگلز کے مداح ہیں اس لیے اُن کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے اِن دوستوں کے ہمراہ سپر باؤل دیکھیں … اور ان کے لیے خوش قسمتی کی دعا کریں۔
یہ مضمون فری لانس لکھاری، ٹِم نیویل نے لکھا۔