‘سفارت خانوں میں آرٹ’ کے پروگرام کا آغاز لگ بھگ 60 برس قبل ہوا تھا اور آج بھی یہ ایک مقبول امریکی پروگرام ہے۔
اس پروگرام کے ذریعے معروف امریکی آرٹسٹوں کے کام کو مستقل طور پر امریکی سفارت خانوں میں آویزاں کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں فن پاروں کی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں۔ بہت سے دوسرے ممالک میں امریکی آرٹسٹوں نے مقامی مصوروں کے ساتھ مل کر نئے فن پارے تخلیق کیے ہیں جنہیں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔

1986ء میں قائم کی گئی ایک غیرمنفعتی تنظیم اس کام میں نمایاں مدد فراہم کرتی ہے۔ ‘فاؤنڈیشن فار آرٹ اینڈ پریزرویشن ان ایمبیسیز’ مخففاً (FAPE) نامی یہ تنظیم خاص طور پر سفارت خانوں میں آرٹ کی ترویج کے لیے کام کرتی ہے۔
سکالر، آرٹسٹ اور اس فاؤنڈیشن کے چیئرمین، رابرٹ سٹور نے کہا، “ہم ایک ایسا پروگرام شروع کرنا چاہتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ فن پارے سفارت خانوں میں لے جائے جائیں اور انہیں وہیں رکھا جائے۔” انہوں نے یہ بات امریکی پاپ آرٹ کے ماہر، رائے لخٹنسٹائن کے فن پارے عطیہ کیے جانے کے موقع پر دیئے جانے والے ایک استقبالیے میں کہی۔

لخٹنسٹائن کی دیوار پر بنائی گئی مشہور تصویر ‘گرین سٹریٹ میورل (1983)’، ان کی بیوہ ڈوروتھی نے عطیہ کی ہے جو عنقریب میکسیکو سٹی میں امریکی سفارتخانے میں مستقل طور پر آویزاں کر دی جائے گی۔ اصل تصویر 1983 میں نیویارک کی کیسٹیلی گیلری میں نمائش کے بعد ارادتاً تلف کر دی گئی تھی۔ بعد ازاں اس کی ایک نقل، کیمرے سے بنائی گئیں تصاویر اور اس کے خالق کے بنائے گئے خاکوں کی مدد سے تیار کی گئی۔ یہ میورل، لخٹنسٹائن کے رنگ برنگے اور مزاحیہ خاکوں جیسے انداز میں، امریکی زندگی کے عام پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ سٹور کا کہنا ہے، “آپ بہت آسانی سے دیوار پر بنائی جانے والی اس تصویر میں گم ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ بائیں جانب دیکھیں، اگر آپ دائیں جانب دیکھیں، تو یہ آگے چلتی جاتی ہے۔”

آرٹسٹوں کے اصل فن پارے، پرنٹس اور کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر بھی سفارت خانوں کی زینت بنتی ہیں۔ اِن فنکاروں میں انسیل ایڈمز اور سنڈی شرمین جیسے فوٹوگرافروں سے لے کر جوزف البرز، الزبتھ کیٹلیٹ، جیسپر جونز اور فرینک سٹیلا جیسے مصور، مایا لن اور لوئی بورژوا جیسے ماہرین تعمیرات اور مجسمہ ساز شامل ہیں۔ اسی طرح کمبلوں اور کھیسوں پر نقش ونگار بنانے والی، ریاست الباما کی جی بینڈ نامی افریقی نژاد امریکی کمیونٹی کی نمائندگی بھی کی گئی ہے۔

سٹور کا کہنا ہے کہ ‘سفارت خانوں میں آرٹ’ جیسے پروگرام کا مقصد ایسے فن پاروں کو اجاگر کرنا ہے جو ” اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے کسی خاص فنکار کی پہچان بن جاتے ہیں اور اس بات کی علامت ہوتے ہیں کہ امریکہ کس طرح کا ہے۔”
ان کی فاؤنڈیشن نے 140 سے زائد ممالک میں 200 سے زیادہ آرٹسٹوں کے مستقل فن پارے بطور عطیہ دیے ہیں۔

حالیہ دہائی میں تبادلے کے پروگراموں کے تحت، لگ بھگ 100 آرٹسٹوں نے غیرملکی آرٹسٹوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خاطر بیرونِ مملک سفر کیا۔ اس پروگرام میں جو ممالک شامل ہیں اُن کے آرٹسٹوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سرکاری اور نجی شراکت سے چلنے والے اس پروگرام میں صرف مصور ہی نہیں، بلکہ عجائب گھر، گیلریاں، یونیورسٹیاں اور فن پارے جمع کرنے والے عام لوگ بھی شامل ہیں۔
اس سلسلے میں 189 ممالک میں مختلف پروگرام منعقد کیے جا چکے ہیں۔ آرٹ گیلریوں کے پیشہ ور منتظمین کی جانب سے ہر سال، قریباً 60 نمائشوں کے لیے فن پارے بھیجے جاتے ہیں اور 2000ء سے اب تک، کم وبیش اتنی ہی تعداد میں فن پاروں کے مستقل نسخے امریکہ کی سفارتی عمارتوں میں آویزاں کیے جا چکے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت میزبان ممالک میں تاریخی عمارتوں کی مرمت اور بحالی میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔ بعض اوقات پراگ کے پیٹسچیک محل کی طرح، فرنیچر، چینی کے برتنوں اور کرسٹل وغیرہ کی قیمت کا تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے۔ پیٹسچیک کی آرائش کے کام کا آغاز، سودے بیز نامی کمپنی کے آرٹ سے متعلق نیلامی کے شعبے کی شراکت سے ہوا۔ سودے بیز بیرون ملک، دفتر خارجہ کی جائیدادوں کی قیمتوں کا بلامعاوضہ تخمینہ بھی لگاتی ہے۔
بحالی کے دیگر کاموں میں بیجنگ میں سفیر کی رہائش گاہ اور لندن میں ‘ونفیلڈ ہاؤس’ نامی امریکی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ بھی شامل ہیں۔

اس طریقے سے آرٹ کے انفرادی نمونوں کو محفوظ بنا دیا جاتا ہے۔ 16 ویں صدی کے فلینڈرز کی گلُکاری کو مرمت اور بحال کر کے ویانا میں امریکی سفارت خانے میں محفوظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح برسلز میں امریکی سفیر کی رہائش گاہ میں 18ویں صدی میں چین میں لکڑی سے بنائی گئی سیاہ رنگ کی کورامینڈل سکرین کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔
رابرٹ سٹور کہتے ہیں، “آپ کو انگریزی نہیں بولنا، آپ کو ہسپانوی نہیں بولنا، آپ کو کچھ نہیں بولنا، آپ کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے: بصری خواندگی۔”