امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں نے عوامی جمہوریہ چین ( پی آر سی) پر زور دیا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط پر مبنی نظام کی پاسداری کرے۔
برسلز میں شمالی بحراوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کے 14 جون کے اجلاس کے دوران، 30 رکن ممالک کے رہنماؤں نے اُن چیلنجوں کو اجاگر کیا جو پی آر سی کی زبردستی کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی اجتماعی سلامتی اور اقدار کو درپیش ہیں۔ نیٹو کے اتحادیوں نے پی آر سی کے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کرنے اور اس کے مبہم انداز سے افواج کو جدید بنانے اور فوجی اور سول حکمت عملی کو باہم مربوط کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پی آر سی کی شفافیت کی عدم موجودگی اور گمراہ کن معلومات کے استعمال کے طرف بھی توجہ دلائی۔
نیٹو کے اتحادیوں نے 14 جون کو برسلز کے سربراہی اجلاس کے اعلامیے میں کہا، “ہم چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرے اور ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے خلا، سائبر اور سمندری شعبوں سمیت بین الاقوامی نظام میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔”
نیٹو کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ پی آر سی کی پالیسیاں اور جابرانہ طرز عمل قواعد وضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام اور اتحاد کی سلامتی کو نظاماتی مشکلات سے دو چار کررہا ہے۔
Our NATO Alliance is stronger than ever. Today I’m joining our 29 allies to discuss our collective defense — including from Russian aggression, strategic challenges from China, malicious cyber activity, terrorism, and climate change.
— President Biden (@POTUS) June 14, 2021
صدر بائیڈن نے 14 جون کو برسلز میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ نیٹو کے اتحادیوں نے 2030ء اور اس کے بعد سکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کے اعلٰی مقاصد کے حامل مجموعے پر اتفاق کیا۔ اس ایجنڈے کے تحت نیٹو کے اتحادی مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں گے:۔
- ابھرتی ہوئی اُن ٹکنالوجیوں کو اپنانے کی رفتار کو تیز کرنے کی خاطرتکنیکی تعاون کو بہتر بنانا جس سے اتحاد کے دفاع اور سکیورٹی میں اضافہ ہوگا۔
- ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کی بدنیتی پر مبنی سائبر سرگرمیوں سے درپیش روز بروز بڑھتے ہوئے اور سنگین خطرات کے خلاف دفاع کو مضبوط بنانا۔
- رکن ممالک کے ترسیلی سلسلوں، انتہائی اہم بنیادی ڈھانچوں اور توانائی کے نیٹ ورکوں کی مضبوطی اور سکیورٹی میں اضافہ کرنا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اتحادی اگلی نسل کے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکوں کے لیے قابل اعتماد فراہم کنند گان پر انحصار کریں۔
- قواعد و ضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بحرہند و بحرالکاہل میں ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ تعاون کو بڑہانا۔
2022ء میں ہونے والے نیٹو کے اجلاس سے قبل رکن ممالک پی آر سی کی طرف سے درپیش نظاماتی چیلنجوں سمیت، ترتیب پاتے ہوئے تزویراتی ماحول کے بارے میں اتحاد کے طرز عمل کی رہنمائی کے لیے ایک نیا تزویراتی تصور پیش کریں گے۔
نیٹو اتحادیوں کے ردعمل میں بھی سات ممالک کے گروپ (جی 7) ممالک کے چین سے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرنے کے مطالبات کی گونچ سنائی دیتی ہے۔
کینیڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل جی 7 ممالک نے 13 جون کے اعلامیے میں خصوصی طور پر چین کو شنجیانگ میں ظلم و جبر اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کے خلاف کاروائیوں کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔
جی 7 کا اعلامیہ کہتا ہے، “ہم اپنی اقدار کو فروغ دیں گے جن میں چین سے خصوصی طور پر شنجیانگ میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا احترام کرنے کے مطالبات کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح اِن میں حقوق، آزادیوں اور ہانگ کانگ کی اعلٰی درجے کی وہ خود مختاری بھی شامل ہے جو چین اور برطانیہ کے مشترکہ اعلان اور بنیادی قانون میں درج ہے۔
15 جون کو امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے بعد، بائیڈن اور یورپی یونین کے رہنماؤں نے شنجیانگ اور تبت میں پی آر سی کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق مشترکہ خدشات کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کے جمہوری عملوں کو پہنچنے والے نقصانات، اور معاشی جبر اور گمراہ کن معلومات کی مہموں پر مشترکہ خدشات میں رابطہ کاری کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
ایک مشترکہ بیان میں امریکہ اور یورپی یونین کے رہنماؤں نے آبنائے تائیوان کے آرپار امن اور استحکام کی اہمیت پر زور دیا اور موجودوہ صورت حال کو تبدیل کرنے کی یکطرفہ کوششوں اور مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین میں کشیدگیوں میں اضافہ کرنے کی مخالفت کی۔
امریکہ اور یورپی یونین نے تجارت اور ٹکنالوجی کی کونسل کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ یہ کونسل ترسیلی سلسلوں کو مضبوط اور بنیادی ڈھانچوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی کے غلط استعمال سے بھی نمٹے گی جس کے نتیجے میں سکیورٹی اور انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔