امریکی اساتذہ تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

بچہ اٹھائے ہوئے ایک عورت بچوں میں گھری ایک دوسری عورت سے بات کر رہی ہے (© Godong/Universal Images Group/Getty Images)
یوگنڈا میں پیس کور کی ایک کارکن (© Godong/Universal Images Group/Getty Images)

اساتذہ سپر اسٹار ہوتے ہیں۔ جی ہاں بالکل کیونکہ وہ پڑھاتے ہیں – مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے اداروں اور اپنی کمبیونٹیوں کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں بااختیار بناتے ہیں۔

اساتذہ کی ستائش کے ہفتے کے دوران ہم امریکہ کے اُن اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو پوری دنیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہزاروں اساتذہ نے ‘ پیس کور’ اور ‘ فل برائٹ پروگرام’ جیسے تبادلے کے امریکی پروگراموں کے ذریعے اپنی خدمات پیش کر رکھی ہیں۔

اِن میں سے بعض کشادی دل میزبان خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں اور چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگوں کو انگریزی اور دیگر مضامین پڑھاتے ہیں۔ جبکہ اِن میں سے دیگر مقامی اساتذہ کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پڑھانے کے نئے طریقوں اور نصابوں کی تربیت دینے کے لیے مقامی اور قومی تعلیمی اداروں کے ساتھ شراکت کاری کرتے ہیں۔

 کلاس روم میں ایک ٹیچر طلبا کو کتاب پڑھکر سنا رہا ہے (© Sam Kresslein/Shutterstock.com)
فروری 2017 میں پیس کور کا ایک رضاکار فجی کے شہر ٹواکی کے ایک سکول میں انگریزی پڑھا رہا ہے۔ (© Sam Kresslein/Shutterstock.com)

تائیوان میں امریکی ٹیچر، ٹیرا وو ایک سرکاری پرائمری سکول میں فلبرائٹ انگلش ٹیچنگ اسسٹنٹ (ای ٹی اے) کے طور پر پڑھا رہی ہیں۔ تائیوان کے 2030 تک رہائشیوں کو انگریزی اور مینڈارین، دو زبانیں سکھانے کے ہدف کی مناسبت  سے  ٹیرا وو اپنے شاگردوں کی انگریزی کی مہارتوں میں اضافہ کرنے کے لیے نصابی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ  غیر نصابی سرگرمیوں کا  اہتمام بھی کرتی ہیں۔

وو نے کہا، “ان کے ساتھ روابط قائم کرنا اور انہیں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنے کا شمار یہاں میرے وقت کے سب سے زیادہ معنی خیز لمحات میں ہوتا ہے۔”

ڈومینک بیلسٹریری-فاکس بھی ترکی میں ایک فلبرائٹ ای ٹی اے ہیں اور ترابزون میں یونیورسٹی کے طلباء کو پڑھاتے ہوئے بننے والی زندگی بھر کی دوستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایلانائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ طالب علم کے طور پر اور استنبول میں ایکسچینج طالبعلم کی حیثیت سے ترکی زبان سیکھنے کے بعد وہ فلبرائٹ ای ٹی اے بننے اور بین الثقافتی رابطوں کو جاری رکھنے پر بہت خوش ہیں۔

وہ کہتے ہیں، “میں سبق پڑھانے کے منصوبے تیار کروں گا اور تفریحی، دلچسپ اور حقیقی دنیا کے موضوعات پر زور دیتے ہوئے انگریزی بولنے کی مشق کراؤں گا۔ اس سے پہلے ہم جانوروں اور قصوں، پسندیدہ کھانوں اور حالات حاضرہ کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔”

ترکی میں اپنے تدریسی تجربے کے بارے میں بتاتے ہوئے بیلسٹریری-فاکس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ خود  بھی ترک ثقافت کے ایک طالب علم تھے۔ “یہ میرے دوستوں کی مہربانی کی چھوٹی چھوٹی مگر انتہائی اثر انگیز عنایات تھیں جنہوں نے وہاں میرے وقت کو انتہائی معنی خیز بنایا۔” بیلسٹریری-فاکس کہتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے امیگریشن آفس کے قواعد و ضوابط پورے کرنے میں میری مدد کی، جنہوں نے شامیں میرے ساتھ  چائے پینے یا ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے گزاریں، اور جنہوں نے بیماری کے دوران میری دیکھ بھال کی۔ وہ کہتے ہیں، “میرے خیال میں یہی وہ جذبہ ہے جو فلبرائٹ پروگرام کے پیچھے کارفرما ہے۔”

لائبیریا اور تنزانیہ میں پیس کور کی رضاکار کرسٹن گراؤر-گرے نے اساتذہ کی تربیت کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ “میں طلباء کو پڑھانے سے زیادہ کچھ کرنا چاہتی تھی۔ میں اساتذہ کو تربیت دینا چاہتی تھی تاکہ میرے جانے کے بعد بھی وہ طلباء سے رابطے میں رہیں۔”

بحیثیت ایک سائنس ٹیچر اُن کا مقصد کلاس روم میں باہمی تعامل کی زیادہ سے زیادہ سرگرمیاں متعارف کرانا تھا۔ سائنس کے تجربات کے لیے درکار سامان کی فراہمی کو بہتر بناتے ہوئے گراؤر-گرے نے سائنس کے ایسے تجربات تخلیق کیے جنہیں آسانی سے دہرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا دانتوں میں خلال کرنے والی تیلیوں، ربڑ کے سینڈلوں، خالی بوتلوں کو “دیگر لوگ کچرا سمجھتے ہیں مگر میں نے انہیں سائنستی تجربات کے لیے استعمال کیا۔”

افریقہ میں اپنی خدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے گراؤر-گرے اُن اساتذہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں جنہیں انہوں نے تربیت دی تھی کہ “ان کی آنکھیں جوش و خروش سے چمک اٹھتی تھیں … میرا صلہ یہی ہے کہ میری محنت کا پھل وہ طلباء و طالبات کھائیں گیں جنہیں میں کبھی نہیں ملوں گی۔”