امریکی امداد ‘قرض کے جال میں پھانسنے کی سفارت کاری’ سے کیسے بچتی ہے

دنیا کے خوشحال ممالک ‘بیرونی امداد’ کی مد میں ہر سال سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ تاہم بیرونی امداد کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر امریکہ کی جانب سے دی جانے والی بیشتر امداد درج ذیل اقسام کی ہوتی ہے:

  • ہنگامی اقدام اور دیگر اقسام کی فلاحی معاونت۔
  • عالمگیر صحت، جیسا کہ ایچ آئی وی/ایڈز اور دیگر بیماریوں کی روک تھام کے پروگرام۔
  • امن اور سلامتی۔
  • احتساب کے اقدامات، عدالتی اصلاحات اور انسانی حقوق کی حمایت کے ذریعے اچھی حکمرانی کا فروغ۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرضے اور کاروباری سرمایہ  کاری بھی امداد کی اقسام ہیں۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے مگر بعض اوقات قرضوں اور سرمایہ کاری کے ساتھ شرائط بھی نتھی ہوتی ہیں۔ قرضے ہر صورت واپس کرنا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی ملک بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ادھار لیتا ہے اور پیسہ دینے والے ملک کے کارکن ہی بہترین تعمیراتی اور دیگر ملازمتیں حاصل کرتے ہیں۔ جو امداد بدعنوانی کی روک تھام نہیں کرتی اس سے وصول کرنے والے ملک کو مدد کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی امداد کی بعض اقسام وصول کنندہ ممالک کو قرضے کے جال میں پھانسنے کے مترادف ہوتی ہیں۔

قرض میں پھانسنے سے اجتناب

Chart ranking top six nations in providing foreign aid (State Dept./J. Maruszewski)
(State Dept./J. Maruszewski)

امریکہ دوسرے ممالک کو مقروض بنانے کے بجائے انہیں طویل المدتی شراکت دار بناتا ہے۔

کالج آف ولیم اینڈ میری کے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرضوں سے معاشی ترقی کی صورتحال میں بہتری نہیں آتی۔ ان کا کہنا ہے کہ قرض دار ممالک کو رقم کی واپسی میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سری لنکا کو چین سے لیا گیا قرض واپس کرنے میں مشکل پیش آئی  تو اسے اپنی ایک بندرگاہ 99 سالہ پٹے پر دینا پڑی۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے این ستھیا مورتھی نیویارک ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، “چینی قرضے کو کم کرنے کے لیے ادا کی جانے والی یہ قیمت اس قرض کے بوجھ سے کہیں زیادہ مہنگی ثابت ہو سکتی ہے جو سری لنکا ادا کرنا چاہتا ہے۔”

امداد وصول کرنے والے ممالک کسی ایک قرض دہندہ کے بری طرح مقروض ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کینیا نے اپنا نصف سے زیادہ قرض، چین کو ادا کرنا ہے۔

جب امدادی پروگرام کی بنیاد عطیے پر نہیں بھی ہوتی تو بھی امریکہ  دوسرے ممالک کی قرض میں پھنسنے سے بچنے میں مدد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت ایک دلیرانہ قدم اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی مدد سے اٹھائے جانے والے اس اقدام کے تحت بھارت میں نجی سرمایہ کاری کی مدد سے چھ لاکھ نئی ماؤں اور ان کے بچوں کی صحت بہتر بنانے کا کام لیا جارہا ہے۔ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور نہایت جرات آمیز یہ منصوبہ، ہسپتالوں کے لیے معاشی اعتبار سے بھی مفید ہے۔

یوایس ایڈ کے منتظم مارک گرین نے ڈیووس میں 2018ء کے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “یہ صحت کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کے ذریعے چلایا جانے والا ہمارا پہلا فلاحی منصوبہ ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ایسے مزید منصوبے بھی شروع کیے جائیں گے۔ یہ زچہ و بچہ کی صحت کے حوالے سے مزید پائیدار اور متعلقہ ملک کی قیادت میں آگے کی جانب اٹھایا جانے والا قدم ہے۔”

نوکریاں کسے ملتی ہیں؟

اگر امدادی پروگرام چلانے کے لیے عطیہ دینے والے ملک کے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں تو پھر اسے امداد نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر انگولا میں اومباکا نیشنل سٹیڈیم تعمیر کرنے والے تین چوتھائی مزدور چین سے منگوائے گئے تھے۔ کیمرون میں ایک بڑی بندرگاہ تعمیر کرنے والے نصف کارکن چین سے آئے تھے۔ اس منصوبے میں مقامی لوگوں کو انجینئرنگ یا بڑے عہدوں پر کام کرنے کے لیے تربیت نہیں فراہم کی گئی۔ اور تو اور ٹرک ڈرائیور کی نوکریوں پر بھی چینی کارکنوں کو لگایا گیا تھا۔

اس کے برعکس یہ دیکھیے کہ امریکہ نے ‘پاور آف افریقہ’ پروگرام کیسے بنایا۔ پاور آف افریقہ ایک حقیقی شراکت ہے جو چھ کروڑ نئے گھروں اور کاروبار کو بجلی مہیا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ امریکہ اور نجی کمپنیاں بجلی کے نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے پیسے دیتی ہیں مگر کام کے لیے مقامی کارکنوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں۔

یوگنڈا کے اوسیکا کینتھ  کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے پلانٹ پر ملنے والے کام سے ان کے خاندان کو 2016 کے قحط سے بچاؤ میں مدد ملی۔ 24 سالہ اوسیکا کہتے ہیں، “چونکہ میں شمسی منصوبے پر کام کر رہا تھا اس لیے میں اپنے خاندان کے لیے خوراک کے حصول میں کامیاب رہا۔” حالیہ جائزوں کے مطابق پاور افریقہ کے تحت دو منصوبوں سے سینیگال کو توانائی کے پائیدار حصول میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں 68 ہزار سے زیادہ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی اور معیشت میں 40 کروڑ ڈالر تک اضافہ ہو گا۔

Two workers walking alongside solar panels (Power Africa)
روانڈا میں شمسی بجلی پیدا کرنے والا گیگاواٹ گلوبل کا ایک پلانٹ۔ (Power Africa)

یوایس ایڈ کے منتظم مارک گرین نے مارچ میں ہونے والی ایک تقریب میں گھانا میں بجلی کے منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے پاور افریقہ کی کثیر الجہتی شراکتوں کی توصیف کی۔ جنرل الیکٹرک اور اینڈیور انرجی ایک پلانٹ لگا رہے ہیں جس سے ملک میں بجلی کی 20 فیصد ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے  گی۔ امریکی حکومت کے ادارے اس منصوبے کے لیے تکنیکی معاونت اور رقم مہیا کر رہے ہیں۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ مارک گرین کہتے ہیں، “اس سے شہریوں کو نوکریاں ملیں گی، مختلف علاقوں کے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہو گا اور گھانا خود انحصاری اور خوشحالی کی جانب رواں دواں ہو گا۔”

شفافیت

ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے جیمز رابرٹس کا کہنا ہے کہ انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے بغیر امداد معاشی بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ رابرٹس کے مطابق، “اس سے بدعنوانی سمیت مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتے ہیں جس سے پائیدار ترقی کا عمل کمزور پڑ جاتا ہے۔”

یہی وجہ ہے کہ یوایس ایڈ کے پروگراموں میں ایسی احتیاطی تدابیر شامل ہوتی ہیں جن کی بدولت لوگ کہیں سے بھی رقم کے استعمال کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

امریکی حکومت نے ‘ فارن ایڈ ایکسپلورر’ یعنی بیرونی امداد کے بارے میں معلومات فراہم کرنےکے پروگرام کے تحت 1946ء  سے اپنے امدادی پروگراموں کے حوالے سے تمام معلومات عوام کے لیے کھول رکھی ہیں۔ اس پروگرام کے تحت سالہا سال تک امریکی امداد کے حوالے سے درست معلومات قابل فہم انداز میں پیش کر دی گئی ہیں۔ امریکی حکومت foreignassistance.gov  پر 2006 سے لے کر اب تک بیرونی امداد کے سلسلے میں دی گئی رقومات کی تفصیلات بھی مہیا کرتی ہے۔

زیمبیا کے جیفری چونگو کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ آبادی والے علاقے میں تین کروڑ ڈالر سے بجلی کا منصوبہ شروع کرنے کے لیے شفافیت ایک اہم عنصر تھی۔ امداد ملنے کے چار سال بعد تک حکومت نے کام شروع نہیں کیا تھا۔ مقامی رہنماؤں نے اس پر آواز اٹھانا شروع کی۔ چونگو کہتے ہیں، “وہ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ رقم کہاں گئی ہے۔ حکومت کو اس کا جواب دینا پڑا۔”

شفافیت کی بدولت ملکوں کو ترقیاتی امداد کے مزید موثر استعمال کی کوششیں مربوط بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

مارک گرین کا کہنا ہے کہ سرکاری و نجی دونوں شعبوں کی جانب سے قوانین و ضوابط پر عملدرآمد اور بہترین انداز میں کام کرنا سبھی کے لیے خوشحالی کی کنجی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “یہ وقت افریقہ کا وقت ہے۔ مگر اس کے لیے ہم سب کا اکٹھے کام کرنا لازم ہے۔”

ابتدائی طور پر یہ مضمون 16 مارچ 2018 کو شائع کیا گیا۔