
باز پروری ایک قدیم کھیل ہے۔ گو کہ امریکہ میں باز پروروں کی تعداد کم یعنی چار ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن وہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔
باز پروری میں لوگ بازوں سمیت کم عمر کے شکاری پرندوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ اِن پرندوں کی خوراک کے لیے جنگلی جانوروں کے شکار میں مدد کی جا سکے۔ ایسا عام طور پر خزاں اور سرما کے موسموں میں کیا جاتا ہے جس سے شکاری پرندوں کو ایک ایسے موسم میں شکار کی مہارتوں پر عبور حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے جب خوراک کی قلت ہوتی ہے۔ کرِس ڈیوس ایک ماہر امریکی باز پرور ہیں اور ورمونٹ اور میسا چوسٹس میں “نیو انگلینڈ فالکنری” کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی باز پرور بازوں کو اپنی خوراک خود تلاش کرنے کے لیے موسم بہار میں آزاد کر دیتے ہیں۔
ڈیوس کہتے ہیں کہ “آپ ان کی جنگلی حیات کو ایک خاص مدت کے لیے ادھار لیتے ہیں اور پھر آپ انہیں جنگلوں میں لوٹا دیتے ہیں۔”
جب 2019 میں ورمونٹ میں اینسٹیشیا مسکیوچ نیو انگلینڈ فالکنری میں رضاکارانہ طور پر تربیت حاصل کر رہی تھیں تو انہیں ایک تجربہ کار بازپرور کے ساتھ شکار کھیلنے کا موقع ملا جس دوران اُن میں باز پروری کا شوق پیدا ہوگیا۔ وہ کہتی ہیں کہ “ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ پرندے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہوتی ہے۔ آپ کو بالکل پتہ نہیں ہوتا کہ کس وقت کیا چیز سر اٹھائے گی” یعنی خرگوش یا گلہری جیسا کوئی شکار۔

قدیم زمانے میں باز پروری پرندوں کی بجائے انسانوں کے لیے خوراک حاصل کرنے میں مدد کے لیے کی جاتی تھی۔ امریکہ کی پبلک براڈکاسٹنگ سروس کے مطابق باز پروری کی ابتدا کے علاقے اور زمانے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پرندوں کی مدد سے شکار منگولیا میں 4,000 اور 6,000 زمانہ قبل مسیح کے کے درمیان شروع ہوا تھا۔ جبکہ اس سے مختلف رائے رکھنے والے ماہرین کے مطابق عرب یا مشرق وسطیٰ میں اس کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ مؤخر الذکر نظریے کے ماننے والے اُن دستاویزات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ایک بادشاہ کے تقریباً 9,000 سال پہلے اُس علاقے میں بازوں سے شکار کھیلنے کی تصدیق کرتی ہیں جو آج کے ایران میں شامل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بازوں سے شکار کرنا اس کے بعد ایشیا اور یورپ میں پہنچا۔
باز پروری امریکہ میں نسبتاً نئی ہے جہاں اسے متعارف ہوئے محض 100 سال ہوئے ہیں۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کے لوگوں میں بازپروری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے میڈیا میں اس کا ذکر1937 میں اس وقت ہوا جب فرینک کریگ ہیڈ اور ان کے جڑواں بھائی، جان نے شکاری پرندوں کے سدھانے کے اپنے تجربات پر نیشنل جیوگرافک رسالے میں ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کے بعد ایک ہندوستانی شہزادے نے جس کا نام کے ایس دھرما کمار سنجھی تھا، کریگ ہیڈ برادران کو ہندوستان آ کر اپنے ہمراہ شکار کرنے کی دعوت دی۔
اگر حال کی بات کی جائے تو 2014 کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب “ایچ از فار ہاک” اور 2016 کی فلم “دا ایگل ہنٹریس” نے آج کے امریکیوں کو اس کھیل سے روشناس کرایا۔ چونکہ باز پروری کا شمار امریکہ کی سب سے زیادہ قانونی پابندیوں کے حامل کھیلوں میں ہوتا ہے اس لیے شکاری بننے کے خواہش مند افراد میں گہری دلچسپی کا رجحان پایا جاتا ہے اور وہ “ماسٹر فالکنر” [استاد باز پرور] بننے کی اعلٰی ترین سطح پر پہنچنے کے لیے کم از کم سات سال اس شعبے میں محنت کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔
ڈیوس 1979 سے بازوں سے شکار کرتے چلے آ رہے ہیں اور انہیں شکار کے دوران کسی قسم کی پیش گوئی نہ کر سکنے کی خاصیت اچھی لگتی ہے۔ وہ کہتے ہیں گو کہ باز پرور اِن پرندوں کے قدرتی طرز عمل کو عارضی طور پر تبدیل کر دیتے ہیں مگر وہ انہیں مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک مثال تربیت یافتہ پرندوں کا چوہوں کا پیچھا کرنا ہے۔ آپ اُن کی اس فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ “پرندوں کی نظر ہماری نظر سے بہت تیزیر ہوتی ہے۔ [وہ] فوری طور پر اپنی فطرت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔”

میری لینڈ کے روڈنی سٹوٹس استاد باز پرور ہیں۔ انہیں باز پروری کے بارے میں ایک دہائی قبل اس وقت علم ہوا جب وہ ایک غیرمنفعتی ادارے کے لیے کام کرتے ہوئے زخمی پرندوں کی دیکھ بھال کرنے کے سلسلے میں پسماندہ نوجوانوں کو شکاری پرندوں کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔
سٹوٹس کو پتہ چلا کہ صحت مند پرندوں کے ساتھ کام کرنے کا واحد طریقہ لائسنس یافتہ باز پرور بننا ہے۔ اُن کے ملنے والوں میں سے کوئی بھی کسی افریقی نژاد امریکی باز پرور کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ سٹوٹس اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ پر اور اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں شک کرنے والوں پر باز پروری کی اپنی اہلیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔
بازپروری کے ساتھ اپنے لگاؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “مجھے مختلف ہونا اچھا لگتا ہے۔”
سٹوٹس نے “برڈ برادر” کے نام سے اپنی یادوں پر مبنی ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ شکار کے لیے پرندوں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ سٹوٹس کو پرندوں کے ساتھ گہرا لگاؤ ہے۔ انہوں نے چھ پرندوں کے نام اپنے فوت ہو جانے والے عزیزوں کے نام پر رکھے ہیں۔ اِن میں باڑے میں رہنے والے ایک چھوٹے الو کا نام بھی شامل ہے جس کا نام اُنہوں نے اپنے مرحوم بیٹے ڈیون ڈینی کے نام پر رکھا ہے۔ سٹوٹس کہتے ہیں “‘جب کوئی مر جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں، ‘وہ اوپر ہے [اور اوپر سے] ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اگر آپ کسی پرندے کو اڑا رہے ہیں تو پرندہ کیا کر رہا ہوتا ہے؟ وہ ہمیں نیچے دیکھ رہا ہوتا ہے۔'”