ہر نئے قمری سال کے آغاز میں پورے ویت نام میں لوگ خوش قسمتی کے لیے کارپ مچھلیوں کو جھیلوں اور دریاؤں میں چھوڑتے ہیں۔ اور ہر سال “کیپ ہنوئی کلین” [ہنوئی کو صاف رکھیں] نامی ایک غیرمنفعتی تنظیم کے نمائندے دارالحکومت میں تہواروں میں شرکت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے چلے جانے کے بعد پلاسٹک کے تھیلے صفائی کی غرض سے اکٹھے کرسکیں۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے انگلش کے ٹیچر، جیمز کینڈل ویت نام میں رہتے ہیں اور انہوں نے کیپ ہنوئی کلین کی بنیاد رکھی۔ وہ کہتے ہیں، “میں ماحولیات کے لیے کوئی اچھا کام کرنا چاہتا تھا۔” اس برس صفائی کا سالانہ کام 23 سے 25 جنوری تک کیا گیا۔ یہ لوگوں سے ملنے اور اُس کمیونٹی کی خدمت کرنے کا ایک بہترین طریقہ بھی ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں۔

کیپ ہنوئی کلین نے آلودگی کا مقابلہ کرنے، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کو بہتر بنانے اور دارالحکومت میں سبز جگہوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے ہزاروں رضاکاروں کو بھرتی کیا۔
ذیل میں وہ طریقے بیان کیے گئے ہیں جن کے ذریعے امریکی شہری بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں مدد کر رہے ہیں۔
نوجوان لیڈروں کی آگاہی میں اضافہ کرنا
واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے ٹریور گائیل اور اِن کی پولش بیوی، اگنیشکا ٹِنکی وِچ گائیل پہلی مرتبہ 2002 میں کمبوڈیا گئے۔ اس دوران اُنہیں کمبوڈیا کے معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا ایک موقع نظر آیا۔
اس جوڑے نے 2012 میں کمبوڈیا کے دارالحکومت، نوم پین میں لیگر لیڈرشپ اکیڈمی کا آغاز کیا تاکہ کام کرتے ہوئے سیکھنے اور پروجیکٹوں پر مبنی تعلیم کے ذریعے قائدانہ مہارتیں سکھائی جا سکیں۔ یہ اکیڈمی کمبوڈیا کے طلباء کو مکمل سکالرشپ دیتی ہے۔
اس اکیڈمی کے بانیان کہتے ہیں، “ہم طلباء کو کمبوڈیا کی مستقبل کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے والے لوگ ہی عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسے حل کرنے کی سب سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ کام کرنے کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں۔”
ماحول کو بچانے کے لیے ٹکنالوجی کا استعمال
امریکی سافٹ ویئر انجینئر، ڈریو گرے نے مصنوعی ذہانت کا ایک پلیٹ فارم تیار کیا ہے تاکہ فرانسیسی پولینیشیا میں ماحولیات کے ماہرین کو موسمیاتی بحران کی وجہ سے مونگوں کی چٹانوں کو پہنچنے والا تقصانات سے محفوظ رکھنے میں مدد مل سکے۔
کورال گارڈنرز نے گرے کو ہیٹی کے ساحل سے پرے مونگوں کی چٹانوں کی نگرانی کے لیے ReefOS [ریفوس] نامی پلیٹ فارم تیار کرنے کے لیے اپنے ساتھ ملایا۔ پانی کے اندر کیمرے اور سینسر نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہوئے، ریفوس ڈیٹا پر نظر رکھے گا جس سے گروپ مونگوں کی چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کو سمجھنے اور اسے روکنے کے حل نکال سکے گا۔
گرے نے اکتوبر میں کہا، “ہمارے پسندیدہ محاوروں میں سے ایک محاورہ ہے کہ ‘ اگر آپ کسی چیز کی پیمائش نہیں کر سکتے تو آپ اس میں بہتری نہیں لا سکتے۔’ ہماری بحالی کی کوششوں کے دوران اور اس کے بعد مونگوں کی چٹانوں میں آنے والی بہتری کی پیمائش کرکے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ماحولیاتی نظام پر ہمارا کیا اثر پڑ رہا ہے اور اس طرح حاصل ہونے والی معلومات کو ہم کام کرنے کے اپنے طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔”