تربیت سے بھارت میں’نیپاہ’ کی وبا پر قابو پا لیا گیا

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں نامعلوم قسم کے بخار اور دماغی سوزش جیسی علامات والی بیماری کی اطلاع ملنے کے بعد 12 گھنٹے کے اندر ہی ملک میں جرثوموں کی تشخیص کرنے کے قومی ادارے میں سائنس دانوں نے تصدیق کر دی کہ’ نیپاہ’ نامی جرثومہ اس بیماری کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بیماری کی تشخیص کے لیے متاثرین کے خون کے نمونے بھارت سے باہر بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑی۔

بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے امریکی مراکز (سی ڈی سی) نے ‘صحت عامہ کے تحفظ کے عالمی ایجنڈے‘ کے  تحت اگست 2017 میں بھارتی سائنس دانوں کو تربیت دی تھی۔ اس پروگرام کے تحت سائنس دانوں کو ‘نیپاہ’ کی فوری تشخیص کرنا سکھایا گیا۔ اس وائرس کا تاحال کوئی علاج یا ویکسین موجود نہیں ہے اور یہ لاحق ہونے کی صورت میں موت کے امکانات 40 سے 70 فیصد کے درمیان ہوتے ہیں۔

امریکی  محکمہ صحت و انسانی خدمات کی جانب سے بھارت میں تعینات شعبہِ صحت کی اتاشی، پریتھا راجارامن کہتی ہیں، ”12 گھنٹے کے اندر اندر اس بیماری کی فوری تشخیص سے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو ‘نیپاہ’ کے خلاف ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے ردعمل دینے کا موقع میسر آیا اور یوں وبا کی شدت میں کمی لانے اور اس سے جانی و مالی نقصان کی شرح کم رکھنے میں مدد ملی۔”

قومی اداروں کے اشتراک سے اس وائرس کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے بروقت قدم اٹھانے پر کیرالہ کے صحت کے ریاستی حکام کی تعریف کی گئی ہے۔ اس وبا کے دوران کیرالہ میں ‘نیپاہ’ کے 19 مریضوں کی نشاندہی ہوئی جن میں 17 جانبر نہ ہو سکے۔

Graphic showing Nipah virus transmisson paths (J. Maruszewski/State Dept.)
(J. Maruszewski/State Dept.)

ایک عالمگیر اتحاد

‘نیپاہ’ کی وبا ان بہت سی وبائی بیماریوں کی ایک مثال ہے جو دنیا کے دوسرے سب سے بڑی آبادی والے ملک کو ہر سال خطرات سے دوچار کر دیتی ہیں۔

امریکہ ان خطرات پر قابو پانے کے لیے خاص طور پر ‘صحت عامہ کے عالمگیر ایجنڈے’ کے تحت بھارت کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے تاکہ وباؤں کی روک تھام، تشخیص اور علاج کی صورتحال بہتر بنائی جا سکے۔ 2018 کے وسط تک 25 ہزار سے زائد بھارتی شہریوں کو اس شراکت کے ذریعے حیاتیاتی تحفظ، حیاتیاتی سلامتی، جدید آلات سے لیس اور ہوا دار لیبارٹریوں میں عمومی جرثومیات کے شعبوں میں تربیت دی گئی۔

‘صحت عامہ کا عالمگیر ایجنڈا’ ایک کثیرالملکی کوشش ہے جس کی ابتدا 2014 میں کی گئی تھی۔ اس شراکت میں اب تک 64 سے زیادہ  ایسے  ممالک اور عالمی تنظیمیں شمولیت اختیار کر چکی ہیں جو وبائی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر تیاری اور عالمی سطح پر صحت کے تحفظ  کو ترجیح دینے کے لیے مل کر کام کر رہی  ہیں۔ امریکہ بھی اس شراکت میں شامل ہے اور اس نے بیماریوں کی روک تھام، تشخیص اور علاج کے لیے ایک ارب ڈالر دیے ہیں۔

اس شراکت کے تحت بھارت میں صحت عامہ کے حوالے سے ذیل میں بیان کردہ چار کاموں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے:

  • صحت عامہ کو لاحق خطرات کی ہمہ وقت نگرانی۔
  • لیبارٹریوں کے نظاموں میں بہتری۔
  • وباؤں کی روک تھام اور علاج کی صلاحیتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں طبی عملے کی تربیت۔
  • مزید ہنگامی کارروائیاں اور فوری عمل کرنے والی ٹیموں پر مشتمل صحت عامہ کے مراکز کا قیام۔

امریکہ نے ‘سی ڈی سی’ اور عالمی ترقی کے امریکی ادارے (یو ایس ایڈ) کے ذریعے بھارت کو’ صحت عامہ کے عالمگیر ایجنڈے’ کے تحت اقدامات کو وسعت دینے کے لیے قریباً چار کروڑ ڈالر دیے ہیں۔

People wearing health masks surrounding ground well (© AFP/Getty Images)
سرکاری اہلکار چمگادڑوں کو پکڑنے کے لیے ایک کنویں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ (© AFP/Getty Images)

ویکسین کی تیاری

مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وباؤں کی روک تھام کی تیاری کے لیے اختراعی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور اس حوالے سے بنائے گئے اتحاد نے امریکہ سے تعلق رکھنے والی ‘پروفیکٹس بائیو سائنسز’ اور ‘ایمرجنٹ بائیو سلوشنز’ نامی دو دوا ساز کمپنیوں کو 20 کروڑ 50 لاکھ  ڈالر کی امداد دی ہے تاکہ وہ اپنی مہارت اور اختراعی ٹیکنالوجی کے ذریعے  نیپاہ کے وائرس کے علاج کے لیے  ویکسین تیار کرسکیں۔

‘پروفیکٹس’ اور ‘ایمرجنٹ’ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ دونوں کمپنیاں مستقبل میں پھوٹنے والی وباؤں کے خدشے کے پیش نظر منصوبہ بندی کر رہی ہیں کہ کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں نئی ویکسین کے تجربات کیے جا سکیں۔ دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ہمارے جیسے اداروں کو جن کے  پاس امید افزا ویکیسن تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے اپنے طبی  تجربات اور دواؤں کی منظوری کی رفتار کو تیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وبائی بیماریاں دنیا بھر میں تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔

دونوں کمپنیوں نے بتایا ہے کہ فی الوقت جانوروں کے لیے تیار کی جانے والی ایک ویکسین کے موثر اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ دونوں کمپنیاں مل کر اس ویکسین کو انسانی استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا اندازہ  ہے کہ اس ویکسین کے طبی تجربات 2019 میں شروع ہو جائیں گے۔