امریکی تعاون سے دنیا میں ملیریا کی پہلی ویکسین تیار کرنے میں مدد ملی

ایک عورت نے بچہ اٹھا رکھا ہے جبکہ دوسری بچے کو ٹیکہ لگا رہی ہے۔ (© Cristina Aldehuela/ AFP/Getty Images)
2019 میں گھانا کے ایون پولی کلینک میں ایک نرس ایک بچے کو ملیریا کی ویکسین لگا رہی ہے۔ یہ کلینک ملیریا کی اُس ویکسین کے آزمائشی تجربات کرنے والے پہلے کلینکوں میں شامل تھا جس ویکسین کی حال ہی میں ڈبلیو ایچ او نے توثیق کی ہے۔ (© Cristina Aldehuela/ AFP/Getty Images)

عالمی  سطح پر حفظان صحت سے امریکہ کی طویل عرصے سے وابستگی نے ایک برطانوی دوا ساز کمپنی کو ملیریا کی بیماری کے خلاف پہلی وسیع پیمانے پر دستیاب ویکسین فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔ امید ہے کہ اس سے ہر سال ہزاروں جانیں بچائی جا سکیں گیں۔

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 6 اکتوبر کو ملیریا کی آر ٹی ایس، ایس/اے 01 نامی ویکسین کی افریقہ کے زیریں صحارا کے خطے اور دنیا کے اُن دیگرعلاقوں میں وسیع پیمانے پر استعمال کرنے کی سفارش کی ہے جہاں ملیریا کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

برطانیہ میں قائم دوا ساز کمپنی گلیکسو سمتھ کلائن (جی ایس کے) نے آر ٹی ایس، ایس ویکسین جسے موسکیرکس بھی کہتے ہیں تیار کی ہے۔ اس ویکسین کی تیاری میں جی ایس کے کیساتھ امریکہ میں قائم غیر منفعتی اداروں نے شراکت کاری داری کی جن میں پاتھ کہلانے والا صحت عامہ کا ایک گروپ اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔ اِن دونوں کے ہیڈ کوارٹر سی ایٹل میں ہیں۔ اس کے علاوہ  دیگر امریکی حکومتی شراکت دار تنظیمیں بھی اس کوشش میں کلیدی شراکت دار تھیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنوم گیبرسیئس نے اپنی تنظیم کی سفارش کو ایک “تاریخی لمحہ” قرار دیا۔ روک تھام کے دیگر اقدامات کے ساتھ مل کر یہ نئی ویکسین سالانہ دسیوں ہزار بچوں کی جانیں بچا سکتی ہے۔

افریقہ کے لیے ڈبلیو ایچ او کے علاقائی ڈائریکٹر، ڈاکٹر میٹ شڈیسو موئٹی نے کہا، “صدیوں سے ملیریا نے افریقہ کے زیریں صحارا کے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ انفرادی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم طویل عرصے سے ملیریا کی ایک موثر ویکسین کی امید لیے بیٹھے تھے اور اب پہلی بار ہمارے پاس ایک ایسی ویکسین موجود ہے جس کی وسیع پیمانے پر استعمال کی سفارش کی گئی ہے۔”

ملیریا مچھروں سے پھیلتا ہے اور اس سے ہر سال 200 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جن میں سے چار لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ کیڑے مار دواؤں کو استعمال کر کے تیار کی جانے والی مچھر دانیوں اور روک تھام کے دیگر اقدامات سے ملیریا سے ہونے والے جانی نقصان میں کافی کمی ہوئی ہے مگر اس سے بچنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ویکسین نہیں تھی۔

ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کی بنیاد گھانا، کینیا اور ملاوی میں جاری پائلٹ پروگرام کے نتائج پر مبنی ہے جس کے تحت 2019 سے لے کر آج تک آٹھ لاکھ سے زائد بچوں کو یہ ویکسین لگائی گئی ہے۔ اس کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ آر ٹی ایس، ایس شدید ملیریا کو 30 فیصد کم کرتی ہے۔ جی ایس کے کا کہنا ہے کہ اگر اسے ملیریا کا علاج کرنے والی دیگر دواؤں کے ساتھ ملایا جائے تو یہ ویکسین 70 فیصد موثر ثابت ہوتی ہے۔

پائلٹ پروگرام کے لیے مندرجہ ذیل تنظیموں نے 70 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے:-

  • ویکسین کا اتحاد، گاوی۔
  • ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کے خاتمے کے لیے قائم کیا گیا گلوبل فنڈ۔
  • یونٹ ایڈ نامی ایک بین الاقوامی تنظیم جس کا قیام تو اقوام متحدہ میں عمل میں آیا مگر یہ اقوام متحدہ کا سرکاری ادارہ  نہیں ہے۔

گلوبل فنڈ کو سب سے زیادہ عطیات امریکہ دیتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کا شمار گاوی کو بڑے عطیات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن ایک امریکی فلاحی تنظیم ہے اور یونٹ ایڈ اور گاوی کو بہت زیادہ عطیات دیتی ہے۔

امریکی اور شراکت دار محققین ڈبلیو ایچ او کے 2030 تک ملیریا کے خلاف 75 فیصد موثر ویکسین تیار کرنے کے ہدف کے حصول کی کوشش کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ویکسین کی بنیاد پر برکینا فاسو، بھارت، کینیا، برطانیہ اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے محققین پہلے ہی ایک اور ویکسین تیار اور اس کا تجربہ کر چکے ہیں جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔

طبی تحقیق کے کیمبرج انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، جولین رائنر نے کہا، “یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔”