امریکی ثالثی میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین پانی کا معاہدہ

اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی نے حال ہی میں پانی سے متعلق ایک تاریخی منصوبے کی تکمیل کی جانب اہم قدم اٹھایا ہے جس سے خطے کو تازہ پانی کی فراہمی اور بحیرہ مردار میں پانی کی سطح بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

اس سلسلے میں امریکی معاونت سے دونوں فریقین نے نمک سے پاک پانی کی تقسیم کے لیے مذاکرات کیے۔ یہ پانی اردن میں بنائے جانے والے پلانٹ سے فراہم کیا جائے گا۔ ان مذاکرات میں اسرائیل نے 30 ملین کیوبک میٹر سے زیادہ تازہ پانی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو فروخت کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

عالمی مذاکرات کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے، جیسن گرین بلیٹ نے 13 جولائی کو یروشلم میں ایک پریس کانفرنس میں کہا،  “فریقین کو اس معاملے میں باہم اتفاق رائے پر پہنچنے میں مدد دینے کے لیے مجھے امریکہ اور ہمارے عالمی شراکت کاروں کے کردار پر فخر ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ مستقبل میں مزید بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہو گا’

یہ معاہدہ ایک پُرامنگ منصوبے سے منسلک ہے جس پر پہلی مرتبہ 2013 میں اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کی رُو سے بحیرہ احمر سے نمکین پانی لے کر اسے اردن میں مجوزہ پلانٹ میں صاف کرنے کے بعد اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور اردن میں پہنچائے جانے کا منصوبہ ہے۔

Three men sitting at a table, with one speaking into microphone (© AP Images)
مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی نمائندے، جیسن گرین بلیٹ (درمیان میں)، اسرائیلی وزیر برائے علاقائی تعاون، ساخی ہنیبی (بائیں)، اور فلسطینی واٹر اتھارٹی کےسربراہ ماذن غنیم (دائیں)، مذاکرات میں ایک اہم پیش رفت کا اعلان کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

پلانٹ کے استعمال سے بچ جانے والے نمکین پانی کو بحیرہ مردار میں ڈال دیا جائے گا تاکہ تبخیر کے نتیجے میں ضائع ہونے والے پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 120 میل لمبی پائپ لائن اور تینوں فریقین میں بے مثل تعاون درکار ہو گا۔

اس منصوبے کو رسمی طور پر ‘بحیرہ احمر، بحیرہ مردار کے پانی کی ترسیل کا منصوبہ’ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عمومی طور پر اسے ‘ریڈ-ڈیڈ پراجیکٹ’ (احمر – مردار منصوبہ) کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کے علاقائی تعاون کے وزیر ساخی ہنیبی کہتے ہیں، “ہمارے خطے میں آج تک شروع کیے جانےو الے اور اس پرعمل درآمد کرنے والے کسی بھی پراجیکٹ کے مقابلے میں ریڈ ڈیڈ پراجیکٹ سب سے بڑا اور انتہائی پُرامنگ پراجیکٹ ہے۔”

امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے اس تازہ ترین سمجھوتے میں پانی کی مقدار (30 ملین کیوبک میٹر) کا معاملہ خاص طور پر اہم ہے۔ اردن میں پانی کو نمک سے پاک کرنے والا یہ پلانٹ جب کام شروع کر دے گا تو اسرائیل یہ پانی فلسطینی اتھارٹی کو فروخت کرے گا۔

پانی کی ٹیکنالوجی کے ضمن میں اسرائیل دنیا میں سب سے آگے ہے اور اپنی آبپاشی کی تکنیکیں دنیا بھر کو برآمد کرتا ہے۔ اسرائیل پانی کو نمک سے پاک کرنے کے پلانٹ اور پائپ لائن کی تعمیر کے لیے اردن کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

Salt concretions lying on the shore of the Dead Sea (© Getty Images)
پانی کو نمک سے پاک کرنے کے پلانٹ کی ضرورت سے فالتو، نمکین پانی کو بحیرہ مردار میں پانی کی سطح کی بحالی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ (© AP Images)

مستقبل کے معاہدوں کا نقیب؟

یہ 10 جولائی کے ہفتے میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان طے پانے والا دوسرا سمجھوتہ ہے۔ ایسے ہی ایک اور سمجھوتے کا تعلق اسرائیل کے مغربی کنارے کے شہر جنین سے باہر، بجلی کے ایک نئے ذیلی سٹیشن کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے سے ہے۔

وائٹ ہاؤس نے ان معاہدوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا، “یہ سمجھوتے اس بات کا ایک اور اشارہ ہیں کہ دونوں فریقین باہمی مفاد کے حامل نتائج کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کے اہل ہیں۔”

اس حوالے سے گرین بلیٹ نے کہا، “صدر ٹرمپ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا امن معاہدے کے لیے کام کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔”

اسرائیلی وزیر ہنیبی کا کہنا ہے کہ “پانی مصالحت، خوشحالی [اور] باہمی تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے۔”

فلسطینی واٹر اتھارٹی کے سربراہ ماذن غنیم نےاس بات سے اتفاق کیا کہ یہ معاہدہ ایک اہم پیش رفت ہے اور انہوں نے”سخت کوششوں” پر امریکی نمائندے، گرین بلیٹ کا شکریہ ادا کیا۔

اِس مضمون کی تیاری میں ایسوی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں سے استفادہ کیا گیا۔