4 جولائی کو امریکہ کے یوم آزادی کے موقع پر واشنگٹن میں ایک نئے میوزیم میں ایسی قدیم اشیا اور قیمتی تاریخی مواد کی نمائش کی جا رہی ہے، جن سے امریکی جمہوریت کے ارتقا کی عکاسی ہوتی ہے۔
امریکی جمہوریت: یقین کی ایک لمبی زقند کے عنوان سے اس نمائش کا اہتمام سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے نیشنل میوزیم آف امیریکن ہسٹری میں کیا گیا ہے۔ اِس نمائش میں 240 سال سے زائد عرصے کے دوران امریکہ کی صورت گری کرنے والے مباحث پر نظر ڈالنے کے ساتھ ساتھ اُس امریکی نظامِ حکومت کے تجربے کے ارتقاء کا جائزہ بھی لیا گیا ہے جس کے تحت حکومت ‘عوام کے لیے، عوام کے ذریعے اور عوام کی خاطر’ کی بنیادوں پر کام کرتی ہے۔

اس نمائش کی ایک مہتمم، باربرا کلارک سمتھ کہتی ہیں، “آج ایک نمائندہ جمہوریت کا ہونا، ایک عام سی بات لگتی ہے، مگر 18ویں صدی میں یہ ایک انقلابی تصور تھا۔”
ایک اور مہتمم، کیتھلین گریڈی کا کہنا ہے کہ اُن 13 برطانوی نو آبادیوں کے رہائشیوں نے، جن پر نوزائیدہ امریکہ مشتمل تھا، ایک نئی قوم کو تشکیل دینے کی خاطر اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ دیے تھے۔

گریڈی کہتی ہین، “جب آپ بادشاہت ترک کرکے عوامی اقتدار اعلیٰ کا حامل ایک ملک بنتے ہیں، تو ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً : 1) ‘لوگ’ کون ہیں؟ ووٹ کون دے سکتا ہے؟ 2) آپ ووٹ ڈالنے کے لیے کس طرح لوگوں کو قائل کرتے ہیں؟ 3) ووٹ ڈالنے کے علاوہ، شہری اِس عمل میں اور کس طرح شریک ہوتے ہیں؟ اور 4) جمہوریت کے لیے کس قسم کے شہریوں کی ضرورت ہوتی ہے؟”

نمائش میں رکھی ہوئی بعض نادر اشیا میں اُس چھوٹے سے میز کے علاوہ، جسے تھامس جیفرسن نے 1776 میں اعلانِ آزادی کا مسودہ لکھنے کے لیے استعمال کیا تھا، ایک سرخ ریشمی شال جسے عورتوں کے حق رائے دہی کی پر زور حامی لیڈر، سوسن بی انتھونی اوڑھا کرتی تھیں اور جوتوں کا ایک ایسا جوڑا شامل ہیں، جو1965 میں سیلما سے منٹگمری، الاباما تک مارچ میں شریک شہری حقوق کے ایک حامی نے پہنا ہوا تھا۔
نمائش میں دیکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے: مثلاً صدارت کے لیے انتخابی مہمات کی یادگار اشیا میں انتخابی مہم کے وہ بٹن بھی شامل ہیں جن میں جارج واشنگٹن کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہلال کی صورت میں ایک بٹن پر تھیوڈور روز ویلٹ کا مسکراتا ہوا چہرہ؛ اور ڈوائیٹ ڈی آئزن ہاور اور جان ایف کنیڈی کی تصویروں والے بوتلوں کے ڈھکنے بھی شامل ہیں۔
تھوڑی سی اونچائی پر لگی سکرینوں پر سیاسی مہمات کے اشتہار دکھائی دیتے ہیں جو ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل نشر ہونے والے اُن پیغامات کی یاد دلاتے ہیں جو انتخابی دنوں کی خصوصیت ہے۔ دوسری جگہوں پر آپ ٹچ سکرین استعمال کرتے ہوئے اس بارے میں سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں کہ جمہوریت کو وفاقی، ریاسستی اور مقامی سطحوں پر کس طرح کام کرنا چاہیے۔ ( ہر دن کے اختتام پر میوزیم کے مہتمم، لوگوں کی آراء میں تنوع اور وسعت کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں۔)
اٹھارویں صدی کے سیاسی کارٹون اور دوسری عالمی جنگ کے زمانے کے بانڈ کے ” چار آزادیوں ” کے مشہور پوسٹر بھی ( تقریر کی آزادی، عبادت کرنے کی آزادی، محتاجی سے آزادی اور خوف سے آزادی ) نمائش میں رکھے گئے ہیں۔

گریڈی بتاتی ہیں کہ نمائش کا اجتماعی پیغام یہ ہے کہ جمہوریت صرف اسی صورت میں کام کرتی ہے جب شہری اس میں شرکت کریں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت ایک بے ہنگم کاروبار ہے لیکن جیسا کہ ان کے ملک کے بانی چاہتے تھے امریکی ” ہمیشہ ‘ایک بہتر اور مکمل اتحاد’ بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔”