Astronaut in flight suit climbing out of capsule in large building (SpaceX/NASA)
سپیس ایکس کمپنی کے کیلی فورنیا میں واقع ہیڈ کوارٹر اور فیکٹری میں خلاباز باب بینکن سپیس ایکس کے کریو ڈریگن کے کیپسول کے اوپر والے خارجی راستے سے باہر نکل رہے ہیں جبکہ ایرک بو (بائیں) دیکھ رہے ہیں کہ وہ یہ کام کیسے کرتے ہیں۔ (SpaceX/NASA)

2011  میں ناسا کی جانب سے اپنا خلائی شٹلوں کا سلسلہ بند کیے جانے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی خلا باز بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے ایک بار پھرامریکی سرزمین سے روانہ ہوا کریں گے۔

امریکی خلائی ادارے نے 3 اگست کو ان خلابازوں کے ناموں کا اعلان کیا جو تجارتی بنیادوں پر جانے والا پہلا مشن لے کر زمین  کے زیریں مدار کے لیے روانہ ہوں گے۔

Compilation of two artist's perspectives, each of space capsule approaching space station (NASA)
سپیس ایکس اور بوئنگ نامی کمپنیوں نے زمین کے مدار میں بھیجنے کے لیے دو نئی گاڑیا تیار کی ہیں جن کے نام “کریو ڈریگن” (بائیں) اور “سٹار لائنر” (دائیں) ہیں۔ (NASA)

اس مرتبہ خلائی سفر کا انتظام ناسا نہیں کرے گا۔ نجی کمپنیوں، سپیس ایکس اور بوئنگ نے بالترتیب ‘”کریو ڈریگن” اور “سٹارلائنر” نامی نئے خلائی جہاز تیار کیے ہیں۔ یہ دونوں جہاز فلوریڈا میں واقع کینیڈی سپیس سنٹر سے زمین سے قریباً 400 کلومیٹر کی بلندی پرگردش کرنے والے خلائی سٹیشن پر بھیجنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

تجارتی مشن پر جانے والے تازہ ترین خلابازوں پر مشتمل عملے کے ناموں کا اعلان کرنے والی ایک تقریب میں خلائی ادارے کے سربراہ، جم برائیڈن سٹائن نے کہا کہ ناسا میں سرمایہ کاری نے خلا میں امریکہ کی قائدانہ حیثیت کو بدستور برقرار رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہمی روابط کے طریقوں سے لے کر خوراک پیدا کرنے تک، “خلا نے ناصرف ہر امریکی بلکہ روئے زمین پر موجود ہر فرد کی زندگی کو اس قدر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے کہ لوگوں کو بالعموم اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔”

نئے خلائی جہازوں کو آئندہ برس بھیجنے کا پروگرام ہے۔ سپیس ایکس کا “کریو ڈریگن” متوقع طور پر اپریل میں خلائی سفر پر روانہ ہو گا جبکہ بوئنگ کے “سٹارلائنر” کو 2019 کے وسط میں بھیجا جانا ہے۔

آئیے ان تازہ ترین خلابازوں سے ملتے ہیں جو یہ پہلے مشن لے کر خلا میں جائیں گے۔

بوئنگ کے سٹارلائنر کی تجرباتی پرواز

Three astronauts standing in front of space capsule (Boeing/NASA)
بائیں سے: ایرک نکول مین اور کرس فرگوسن۔ (Boeing/NASA)

2019 کے وسط میں ایرک بو، نکول اوناپومین اور کرسٹوفر فرگوسن “سٹارلائنر” کی پہلی پرواز لے کر خلا میں جائیں گے۔ بو اور فرگوسن خلائی شٹل اڑا چکے ہیں اور مین امریکہ کی میرین کور کی پائلٹ ہیں جو خلا میں اپنی پہلی پرواز کی تیاری کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “ایک ٹیسٹ پائلٹ کی حیثیت سے اس سے زیادہ بہتر موقع کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔”

سپیس ایکس کے کریو ڈریگن کی تجرباتی پرواز

Two astronauts standing in front of space capsule (SpaceX/NASA)
باب بینکن (بائیں) اور ڈک ہرلی۔ (SpaceX/NASA)

تجربہ کار خلاباز باب بینکن اور ڈگ ہرلی سپیس ایکس کے کریو ڈریگن پر پہلا مشن لے کر خلا میں جائیں گے۔ بینکن کہتے ہیں وہ اس خلائی جہاز پرجدید ترین سافٹ ویئر استعمال کرنے پر بہت پرجوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلائی شٹل میں چیزوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہزاروں بٹن ہوتے تھے اور “غلط وقت پر غلط بٹن دبانے کی صورت میں حالات خراب ہونے کا خطرہ رہتا تھا۔” اس کے مقابلے میں کریو ڈریگن میں بہت سے آلات خودکار طریقے سے کام کرتے ہیں۔

سٹارلائنر کا پہلا مشن

Two astronauts standing in front of space capsule (Boeing/NASA)
جوش کیسیڈا (بائیں) اور سنی ولیمز۔ (Boeing/NASA)

جوش کیسیڈا اور سنی ولیمز دونوں کا امریکی بحریہ میں بطور ٹیسٹ پائلٹ کام کرنے کا تحربہ ہے۔ کیسیڈا نے 2013 میں خلابازوں کی صف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تب خلابازوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ روسی سویوز راکٹوں کے ذریعے عالمی خلائی سٹیشن پر جائیں گے۔ انہوں نے مذاقاً کہا، “مجھے یقین ہے کہ روسی زبان سکھانے والا کم از کم ایک استاد ایسا ضرور ہو گا جو یہ سوچے گا کہ میرا امریکی جہاز اڑانا کوئی پرخطر کام نہیں ہے۔” ولیمز کہتی ہیں کہ عالمی شراکت داروں کو یہ خلائی جہاز دکھانا ان کے لیے بڑی خوشی کا باعث ہے۔ وہ کہتی ہیں، بہت کچھ کیا جانا باقی ہے اور ہم تو صرف ابتدا ہیں۔”

کریو ڈریگن کا پہلا مشن

Two astronauts standing in front of space capsule (SpaceX/NASA)
وکٹر گلوور(بائیں) اور مائیک ہاپکنز۔ (SpaceX/NASA)

خلاباز وکٹر گلوور اور مائیکل ہاپکنز عالمی خلائی سٹیشن کی جانب سپیس ایکس کے پہلے مکمل مشن کی قیادت کریں گے۔ گلوور امریکی بحریہ میں مختلف قسموں کے 40 جہاز اڑا چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی خلائی سفر کی نئی شروعات کا حصہ ہونا ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں، “یہ خوابوں جیسی بات ہے۔”