امریکی خواتین وال سٹریٹ میں، کاریں بنانے کی فیکٹری میں اور فن کی دنیا میں اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی سات خواتین کی کامیاب زندگی پر ایک نظر ڈالی گئی ہے:
سٹیسی کننگ ہیم

بازار حصص کے تاجر کی بیٹی، سٹیسی کننگ ہیم نے نیویارک کے سٹاک ایکس چینج (بازارِ حصص) میں پہلے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک تربیت کار اور بعد میں کلرک کے طور پر کام کیا۔ ہنگامہ خیز سٹاک ایکس چینج میں اس وقت مردوں کا غلبہ ہوا کرتا تھا۔ آج وہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے سٹاک ایکس چینج کی صدر ہیں۔ انہوں نے صنعتی انجینرنگ کی ڈگری لے رکھی ہے۔ انہوں نے سٹاک ایکس چینج میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے دوران کام چھوڑ کر کھانے پکانے کے سکول میں بھی داخلہ لیا۔ تاہم بعد میں وہ مالیاتی دنیا میں واپس آ گئیں۔ ‘فوربز‘ رسالے سے باتیں کرتے ہوئے نئے شروع کرنے والوں کو انہوں نے مشورہ دیا، “اگر آپ اپنی ساری صلاحیتیں بروئے کار نہیں لا رہے تو آپ اتنی ترقی نہیں کر رہے جتنی کہ آپ کر سکتے ہیں۔”
گیشا ولیمز

پانچ برس کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ کیوبا سے امریکہ آنے والی گیشا ولیمز کا کہنا ہے کہ انہوں نے “ایسی دنیا کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا جس میں وہ کسی بڑی کارپوریشن کی سی ای او بن پائیں گیں۔” مگر آج وہ پہلی لاطینی خاتون ہیں جو ‘فارچون 500″ میں شمار ہونے والی ‘پیسیفک گیس اینڈ الیکٹرک کارپوریشن’ نامی کمپنی کی سی ای او یعنی افسر اعلٰی ہیں۔ گیس، بجلی وغیرہ فراہم کرنے والی جس پہلی کمپنی میں انہوں نے کام کیا اس میں ان کی رہنمائی کرنے والے سرپرست نے انہیں یہ بتا کر حیران کردیا، “گیشا، کسی نہ کسی کو تو اس کمپنی کو چلانا ہے۔ یہ آپ کیوں نہیں ہو سکتیں؟ اب وہ دوسری عورتوں پر زور دیتی ہیں کہ وہ مشکل ترین ملازمتیں تلاش کیا کریں۔
لورنا مہلوک

لورنا مہلوک نے میرین کور کی تاریخ میں اپریل میں اس وقت خاص مقام حاصل کیا جب صدر ٹرمپ نے انہیں اولین افریقی نژاد امریکی خاتون جنرل کے طور پر نامزد کیا اور سینٹ نے اس نامزدگی کی توثیق کر دی۔ جمیکا کے شہر کنگسٹن میں پیدا ہونے والی مہلوک نے ترک وطن کے بعد بروکلین، نیویارک میں آ کر رہنا شروع کیا۔ 1985ء میں وہ نوعمری میں میرین کور میں بھرتی ہوگئیں۔ انہوں نے تین بار عراق میں خدمات انجام دیں۔ بریگیڈیر جنرل مہلوک آج کل کمانڈ، کنٹرول، مواصلات، کمپیوٹر کے شعبوں کی کمان کرنے کے ساتھ ساتھ چیف انفارمیشن آفیسر کے فرائض بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ میرین کور نے جنگ سمیت عورتوں کے لیے تمام شعبے کھول دیئے ہیں۔ مہلوک کہتی ہیں، “یہ ایک مسلسل پیشرفت ہے۔”
کیوین فیلڈ مین

کلاسیکل آثار قدیمہ اور آرٹ کی تاریخ میں تربیت پانے والی کیوین فیلڈ مین نے 28 برس کی عمر میں پہلی مرتبہ ایک عجائب گھر کی سربراہی کی۔ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے ہر موڑ پر عجائب گھروں میں نمائش کے لیے رکھیں گئیں اشیاء کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا۔ لیکن ان کو ٹیکساس کے عجائب گھروں کے چیئرمین کی ان سے کہی گئی یہ بات آج تک یاد ہے، “آپ اس (مرتبے) کے لیے بہت کم عمر اور بہت زیادہ نسوانی ہیں کہ عجائب گھر کا کوئی منتظم آپ کے ماتحت کام کرے۔” 52 سالہ فیلڈ مین آج نیشنل آرٹ گیلری کی پہلی خاتون ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
ایلین سٹوفین

ایلین سٹوفین کی عمر اس وقت چار برس تھی جب انہوں نے پہلی مرتبہ راکٹ کو فضا میں چھوڑے جانے کا منظر دیکھا۔ راکٹ سائنسدان اور سائنس ٹیچر کی اس بیٹی نے پہلے پہل امریکہ کے قومی ہوابازی اور خلائی ادارے میں نظام فلکی کی سطحوں کی ماہر اور بعد میں ادارے کی چیف سائنٹسٹ [اعلٰی سائنسدان] کے طور پر کام کیا۔ اب وہ نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم [قومی فضائی و خلائی عجائب گھر] کی سربراہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ سٹوفین کہتی ہیں، میں چاہتی ہوں کہ میرے میوزیم میں آنے والا ہر بچہ اپنا آپ پہچانے۔”
کارلی کلوس

فیشن ماڈل کارلی کلوس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ جانے پہچانے چہروں میں ہوتا ہے۔ وہ آپ کو رسالوں کے سر ورقوں، “پراجیکٹ رنوے” نامی ٹی وی شو کی میزبان اور انسٹا گرام پر نظر آئیں گی جہاں ان کے مداحوں کی تعداد 78 لاکھ ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایسی ماہر بھی کہتی ہیں جو گرمیوں میں “کوڈ ود کلوسی” کے نام سے منعقد کیے جانے والے ‘ سمر کیمپوں’ کے ذریعے لڑکیوں کو کمپیوٹر پروگرامنگ کے لیے کوڈنگ سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔
ڈیبرا منزانو

کارسازی کی صنعت کا طویل تجربہ رکھنے والی، ڈیبرا منزانو کو وہ وقت یاد ہے جب انہوں نے پہلی مرتبہ کار کو بنتے اور اسمبلی لائن سے تیار شدہ حالت میں اترتے ہوئے دیکھا تھا۔ منزانو نے فورڈ موٹر کمپنی کی ایک نجی اشاعت میں لکھا، “یہ ایک معجزے کی طرح تھا۔ اس منظر نے مجھے حیران کر کے رکھ دیا۔” وہ آج کل ریاست مشی گن کے شہر ڈیئر بورن کے فورڈ کے، ایف 150 پِک اپ ٹرک بنانے والے پلانٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ مصنوعات سازی کی صنعت میں اچھی تنخواہ، اعلٰی ٹکنالوجی والی ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے لڑکیوں کی سائنس کی کلاسیں لینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
فری لانس مصنفہ جولیا باہل نے اس مضمون کی تحریر میں مدد کی۔