امریکی سفارتی برادری کا ایک لازمی جُز: تنوع

Group photo outside at State Dept building (State Dept.)
Curtis, Jesse S The photo was taken by a Department photographer. We believe this one was Mark Stewart (Robert Mark Stewart). For photo caption we suggest, "The 2019 Pickering Fellows represent America's diversity and beam with pride as they prepare in Washington, D.C. to serve in the U.S. Foreign Service."

امریکی سفارت کار بیرونی ممالک میں امریکی اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں اور امریکی زندگی کے ایک اہم اصول یعنی “تنوع” کی صورت گری کرتے ہیں۔

امریکہ میں صنف، مذہب، جنسی رجحان یا معاشرتی پس منظر سے قطع نظر کوئی بھی سفارت کار بن سکتا ہے اور امریکی فارن سروس کے ایک رکن کے طور پر بیرون ملک امریکہ کی نمائندگی کر سکتا ہے۔

جن طریقوں سے امریکی محکمہ خارجہ تنوع کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اُن میں دو یعنی تھامس آر پکرنگ فیلوشپ پروگرام اور چارلس بی رینگل انٹرنیشنل افیئرز پروگرام شامل ہیں۔ یہ پروگرام اس امر کو یقینی بنانے میں معاونت کرتے ہیں کہ امریکی سفارت کار امریکی شہریوں کے بھرپور تنوع کی عکاسی کریں۔ امریکی شہری شناخت اور آزادی، جمہوریت اور مواقع کی بنیادی امریکی اقدار کے ساتھ وابستگی پر متحد ہوتے ہیں۔

محکمہ خارجہ کے مغربی نصف کرے کے امور کے بیورو کی پرنسپل اسسٹنٹ سیکرٹری، جولی چنگ نے کہا،” ہمارے ملک کے بیش قیمت پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ حقیقت بھی ہے کہ ہمارے ہاں تنوع پایا جاتا ہے یعنی وہ لوگ جو اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے، (اور) مختلف پسہائے منظر رکھتے ہیں وہ امریکہ کے نمائندے بن سکتے ہیں۔”

چنگ کا تعلق پکرنگ فیلوز کے تحت آنے والے پہلے گروپ سے ہے۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور 1996ء میں امریکی فارن سروس میں شامل ہوئیں۔

چنگ نے بتایا، ” میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مجھ جیسا کوئی فرد جو ایک تارک وطن ہو، عورت ہو، ایشیائی نژاد امریکی ہو، [فارن سروس] کا حصہ بن سکتا ہے۔ میری حد تک تو پکرنگ پروگرام ایک کھڑکی کی طرح تھا۔ کسی بات کی کوئی ضمانت نہ تھی، کوئی ہموار راہ  نہ تھی۔ میرے لیے یہ غور سے اندر دیکھنے اور موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے محض ایک کھڑکی تھی۔

 ایک عمارت کے باہر کھڑے لوگوں کا گروپ فوٹو (State Dept.)
2019ء کے پکرنگ پروگرام سے فارغ ہو کر امریکی فارن سروس میں شامل ہونے والے افراد۔ (State Dept.)

1992ء اور 2002ء میں بالترتیب شروع ہونے والے پکرنگ اور رینگل فیلو شپ پروگراموں کے تحت ایسے گروپوں سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جنہیں امریکی فارن سروس میں تاریخی اعتبار سے کم نمائندگی حاصل رہی ہے۔ حال ہی میں محکمہ خارجہ نے 90 افراد کو داخلے دینے کے لیے پکرنگ اور رینگل فیلو شپس میں نشستوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ کیا ہے۔

وینیسا کولن اور کرسٹینا ہارڈ اوے دونوں فارن سروس افسران ہیں۔ انہوں نے 2009ء میں رینگل فیلوز کے طور پر اپنی سروس کا آغاز کیا۔ وہ دنیا بھر میں رفقائے کار کا ایک ایسا وسیع نیٹ ورک بنانے کا سہرا رینگل فیلوشپ پروگرام کے سر باندھتی ہیں جو امریکہ کے عمدہ ترین سفارت کاروں کی نمائندگی کرتا ہے۔ رینگل پروگرام کے سابقہ شرکاء اس وقت دنیا کے 60 ممالک میں امریکہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

کولن نے کہا، “مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں صرف اپنے رفقائے کار سے یعنی وہ لوگ جو میرے گروپ میں ہیں، اور وہ جو مجھ سے عمر میں چھوٹے یا بڑے ہیں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔”

گریجوایٹ ڈگریاں لینے اور واشنگٹن اور بیرونی ممالک میں امریکی سفارت خانوں میں تربیت کاروں کے طور پر کام کرنے کے بعد، پکرنگ اور رینگل فیلوز امریکی فارن سروس میں کم از کم پانچ سال خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی اکثریت سفارت کاری میں مختلف حیثیتوں سے لمبے عرصے تک خدمات انجام دینا جاری رکھتی ہے۔

پکرنگ اور رینگل فیلوشپس کا مقصد جتنا زیادہ ممکن ہو سکے متنوع پسہائے منظر کے حامل اتنے زیادہ افراد کو بھرتی کرنا ہے۔ محکمہ خارجہ نے امریکہ بھر میں سفارت کاروں کی بھرتی میں اعانت فراہم کرنے کے لیے 16 علاقائی دفاتر کھول رکھے ہیں۔

سفارت کار کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دورے کرتے ہیں جہاں پر وہ امریکی سفارت کاری سے متعلق کورسوں اور ورکشاپوں میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں اور طلبا کو محکمہ خارجہ کی تربیت کاریوں، فیلو شپس اور پیشہ وارانہ مواقع سے متعلق آگاہی دیتے ہیں۔

کولن اور ہارڈ اوے اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کی سفارتی برادری کی قوت کا انحصار اس کے گروہوں کے تنوع پر ہے۔

ہارڈ اوے نے کہا، “یہ بات (یعنی تنوع)  خارجہ پالیسی کے حق میں جاتی  ہے۔ جب آپ کو گونا گوں تجربات حاصل ہوں اور آپ متنوع پسہائے منظر کے حامل ہوں تو مختلف پہلوؤں سے پالیسی کے بارے میں سوچتے وقت آپ جدت طرازی اور تخلیقیت سے کام لیتے ہیں۔”