امریکی سفارت خانے کے مقامی عملے کے ارکان کو ہیروز کے طور پر خراج تحسین

ہیروز ہمارے درمیان روز و شب موجود ہوتے ہیں مگر جب کوئی افتاد سر پر پڑتی ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ کون ہیں۔

18 نومبر کو ایک تقریب میں محکمہ خارجہ نے بدیع اور ھالہ العذاری کو اُن کی امریکہ کے لیے خدمات اور 14 ستمبر 2012 کو تیونس میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے دوران اور حملے کے بعد درپیش فوری خطرات میں انسانی جانیں بچانے پر امریکی سفارت کاری کے ہیروز کے طور پر خراج تحیسن پیش کیا۔

امریکی سفارت کاری کے ہیروز کے طور پر خراج تحسین پانے والے بدیع اور ھالہ العذاری کسی بھی امریکی سفارت خانے کے مقامی عملے کے اولین رکن ہیں جنہیں امریکی سفارت کاری کے ہیروز کا اعزاز دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کی برادری میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد 60,000 ہے۔

محکمہ خارجہ کی فارن سروس کی ڈائریکٹر جنرل، کیرول زیڈ پیریز نے کہا، “بدیع اور ھالہ العذاری نے تیونس میں امریکی سفارت خانے پر ستمبر 2012 میں ہونے والے حملے کے دوران اور فوری بعد کی صورت حالات میں انتہائی اہم کردار ادا کیے۔ اُن کے دلیرانہ اور بے لوث کاموں نے زندگیاں بچائیں، امریکی پرچم کو محفوظ رکھا اور سفارت خانے کے سینکڑوں ملازمین، (اُن کے) اہل خانہ، اور بچوں کو خطرات سے نکالا۔”

بدیع اور ھالہ العذاری بیوی اور خاوند ہیں اور دونوں نے ملا کر تیونس میں امریکی سفارت خانے میں 58 برس تک خدمات انجام دیں۔ بدیع سفارت خانے کے علاقائی سکیورٹی کے دفتر میں فارن سروس کے نگران مقامی تفتیش کار کے طور پر کام کرتے تھے جبکہ ھالہ سفارت خانے کی ہیومن ریسورسز (انسانی وسائل) کی سینیئر سپیشلسٹ کے طور پر کام کرتی تھیں۔

 سفارت کاری کے ہیروز کا گرافک اور اُن کے دلیرانہ کاموں کی تفصیل کے ساتھ بدیع اور ھالہ العذاری کی تصویریں (State Dept.)

14 ستمبر 2012 کو تیونس میں امریکی سفارت خانے کو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ممکنہ حملے کی اطلاع ملی۔ بدامنی کی صورت میں حفاظتی اقدام کے طور پر سفارت خانے نے عملے کے زیادہ تر لوگوں کو گھر جانے کا کہا۔

ھالہ نے بدیع کی اس کے ساتھ گھر جانے کے لیے منتیں کیں مگر اُس نے انکار کر دیا۔ وہ سفارت خانے میں رکنا چاہتا تھا اور سفارت خانے کے کمپلیکس کی جس طریقے سے وہ حفاظت کر سکتا تھا، کرنا چاہتا تھا۔

کئی گھنٹوں بعد جب پرتشدد مظاہرے شروع  ہوئے تو بدیع نے اُس وقت دلیری سے کام لیتے ہوئے ہجوم کا سامنا کیا جب اُس نے یہ سنا کہ عملے کا ایک امریکی رکن سفارت خانے کے احاطے سے باہر ایک عمارت میں پھنسا ہوا ہے۔

اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر بدیع عملے کے اس رکن کو سفارت خانے کے مرکزی حصے میں محفوظ جگہ پر لے آیا۔

اس کے تھوڑی دیر بعدد جب ہجوم میں موجود لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور اُن کا غصہ بڑھ گیا تو بدیع نے دیکھا کہ مظاہرین امریکی پرچم اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بدیع نے تیونس میں امریکی سفارت کاری کی علامت، اِس پرچم کو نقصان پہنچنے سے پہلے ہی ہجوم کو منتشر کر دیا۔

بدیع نے بتایا، “بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میں اُن کی طرف دوڑا” اور “ہجوم کو منتشر کر دیا۔”

حملے کے فوراً بعد، ھالہ نے سفارت خانے کے 100 سے زائد اہلکاروں اور اُن کے اہل خانہ کے تیونس سے باہر جانے کے ویزوں پر بڑی محنت سے رابطہ کاری کا کام کیا۔ اُن کا شمار مقامی عملے کے اُن چند ایک افراد میں ہوتا ہے جنہیں ضروری کاغذات مکمل کرنے کے لیے سفارت خانے میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جب بدامنی کی وجہ سے تیونس سے باہر جانے والی کوئی پرواز دستیاب نہیں تھی تو ھالہ نے امریکی سفارت خانے کے عملے اور اُن کے اہل خانہ کے انخلا کے لیے ایک فوجی پرواز کا بندوبست کرنے میں مدد کی۔

ھالہ کا کہنا ہے کہ اس بحران کے دوران پرسکون رہتے ہوئے اور تیزی سے سوچتے ہوئے، اُن کے ذہن پر بیک وقت اس واقع سے جڑا صدمہ اور بدیع کے بارے میں پریشانی چھائی ہوئی تھی۔

ھالہ نے بتایا، “میرے لیے حقیقی معنوں میں یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔ مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ اس قسم کا حملہ میرے ملک میں، میرے سفارت خانے پر، میرے گھر پر ہو سکتا ہے۔”

پیریز نے کہا کہ یہ بدیع اور ھالہ العذاری جیسے مقامی عملے کے اراکین کی دلیری اور سرفروشی ہی ہے جس کی وجہ سے بیرونی ممالک میں امریکی سفارت خانے کام کر سکتے ہیں اور پھل پھول سکتے ہیں۔

پیریز نے کہا، “ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے لوگ ہماری طاقت ہیں۔ اور یہ پروگرام بہت سی اُن کامیابیوں کے پیچھے موجود انفرادی کہانیوں سنا کر اس پیغام کی اہمیت واضح کرتا ہے جنہیں لوگ امریکی عوام کی مدد کے لیے ہر روز حاصل کرتے ہیں۔”