
18 اکتوبر کو 84 برس کی عمر میں جب کولن پاول کا انتقال ہوا تو پوری دنیا سے انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
1989 سے 1992 تک وزیر خارجہ رہنے والے، جیمز اے بیکر تھری نے کہا کہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین کے طور پر پاول کی “پرعزم، ذہین اور نپی تلی قیادت” بش کی صدارت کے دوران انتہائی اہم رہی۔ انہوں نے کہا، “جنرل پاول زبردست پالیسی ساز سے بڑھکر بھی بہت کچھ تھے۔ وہ ایک خوبصورت انسان اور قابل اعتماد مشیر تھے۔” بیکر وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے علاوہ صدر رونالڈ ریگن اور جارج ایچ ڈبلیو بش کے تحت کابینہ کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا پاول کو ایک راہنما اور مدبر کے طور پر جانتی تھی مگر جن کے ساتھ انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ میں کام کیا اُن کے نزدیک وہ باس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سرپرست اور دوست بھی تھے۔ 2001 سے 2005 تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے اپنے ملک کی خدمت کرتے ہوئے پاول نے محکمے کو جدید خطور پر استوار کیا اور سفارت کاروں کو با اختیار بنایا۔
امریکن فارن سروس ایسوسی ایشن [اے ایف ایس اے] نے جس کے ممبر امریکی سفارت کار ہوتے ہیں پاول کے محکمہ خارجہ کے “خاندان” کے ساتھ لگاؤ کی تعریف کی۔ اے ایف ایس اے کے صدر، ایمبیسڈر ایرک روبن نے کہا کہ ایسوسی ایشن کے ارکان نے بہت بڑی تعداد میں اپنی سہانی یادیں شیئر کی ہیں۔ روبن نے کہا کہ یادوں بھرے ان پیغامات میں پاول کی اپنے سابقہ ملازمین کے لیے “محبت، اعتماد، حمایت اور فکرمندی” کو اجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، “امریکہ کی فارن سروس اُن کا سوگ امریکہ کے عظیم ترین وزرائے خارجہ میں شمار ہونے والے ایک وزیر خارجہ کی حیثیت سے اور امریکہ کے پیشہ ور سفارت کاروں کے ایک سچے دوست کی حیثیت سے منا رہی ہے۔”
ایک علیحدہ بیان میں اے ایف ایس اے نے کہا کہ پاول “اپنے ‘فوجیوں’ کی دیکھ بھال کرنے پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ اس یقین پر عمل بھی کرتے تھے۔ اُن کا شمار اُن معدودے چند وزرائے خارجہ میں ہوتا تھا جنہوں نے پیشہ ور اور ماہر فارن سروس کو معقول تعداد میں عملہ اور وسائل فراہم کرنے پر بہت زیادہ وقت صرف کیا۔ وہ اپنے ماتحتوں سے مشورہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی عزت بھی کرتے تھے۔ اس وجہ سے وزیر خارجہ پاول کو ہمیشہ انتہائی محبت اور توصیف سے یاد رکھا جائے گا۔”

سیاسی امور کے سابق انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ، نکولس برنز نے ٹوئٹر پر کہا، “جنرل کولن پاول کا شمار ہمارے عظیم ترین سرکاری ملازمین میں ہوتا تھا۔ [وہ] محکمہ خارجہ اور فوج دونوں کے لیے ایک جرائتمند اور متاثرکن لیڈر تھے۔ جن لوگوں نے اُن کے ساتھ کام کیا وہ سب اُن کی تعریف کرتے تھے۔”
سابقہ نائب وزیر خارجہ اور پاول کے ایک قریبی دوست، جان نیگروپونٹے نے سی این این کو بتایا، “ہم نے ایک عظیم امریکی کھو دیا ہے۔ میرے ذہن میں قطعی طور پر ایک ہی کولن ہے جسے ہر اُس شخص نے محبوب جانا جس کے ساتھ اُس کا واسطہ پڑا۔”
اپنے ساتھیوں کی قدر دانی
موجودہ اور سابقہ وزرائے خارجہ، سب نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
پاول سے پہلے 1997 سے 2001 تک وزیر خارجہ رہنے والی، میڈیلین البرائٹ نے کہا کہ انہوں نے ایک دوست کھو دیا ہے۔ “اگرچہ ہم مختلف پسہائے منظر میں پلے بڑھے مگر ہم اپنے خاندانوں کی تارکین وطن کی کہانیوں، امریکہ سے ہماری گہری محبت، اور عوامی خدمت کی اہمیت کے بارے میں اپنے عقیدے کے ذریعے ایک بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ وہ زیرک اور اصول پرست انسان تھے۔ وہ اُن مہربان ترین انسانوں میں سے ایک تھے جن سے میں آج تک مل چکی ہوں۔”
اُن کے فورا بعد وزیر خارجہ بننے والی، کونڈولیزا رائس (2005-2009) نے کہا، “کولن پاول نے اپنی پوری زندگی اپنے ملک کی خدمت میں صرف کی۔ وہ بعض انتہائی مشکل وقتوں میں ایک قابل اعتماد رفیق کار اور ایک عزیز دوست ثابت ہوئے۔”

اپنی ایک حالیہ گفتگو میں پاول کو یاد کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کہا، “دو چیزیں واضح تھیں یعنی وزیر خارجہ پاول کی دنیا کے واقعات کے بارے میں علم کی گہرائی بےمثل تھی اور وہ محکمہ خارجہ سے محبت کرتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ ترقی کرے۔ ... آج کا دن یہاں محکمہ خارجہ میں ایک غمناک دن تھا۔”