
بائیڈن- ہیرس انتظامیہ اب تک کی سب سے زیادہ متنوع انتظامیہ ہے اور اس میں امریکی سفارتی کوششوں کی قیادت کرنے والی خواتین ایک ریکارڈ تعداد میں موجود ہیں۔
آنجہانی میڈلین البرائٹ اپنی زندگی اوراپنے کیریئر کے دوران ہمیشہ پہل کار رہیں۔ 1997 میں وہ وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون بننے کے بعد اس وقت کی امریکی حکومت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ وہ جمہوریت کی زبردست چیمپئن اور ایک باصلاحیت مذاکرات کار تھیں۔
اس کے بعد امریکی حکومت میں اعلیٰ قیادت کے عہدوں پر فائز خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اِن تمام میں سے یقینی طور پر سب سے قابل ذکرکملا ہیرس کا نائب صدر کے طور پر منتخب ہونا تھا۔ اس منصب پر فائز ہونے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔ ہیرس نے پہلی سیاہ فام امریکی اور پہلی جنوبی ایشیائی امریکی خاتون کی حیثیت سے نائب صدر منتخب ہو کر نادیدہ روایتی رکاوٹوں کو بھی ختم کیا۔

صدر بائیڈن اور وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے ہمراہ ہیرس بین الاقوامی برادری میں امریکہ کی اور اس کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ بحرالکاہل میں اقتصادی خوشحالی سے لے کر یوکرین اور نیٹو کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کھڑے ہونے اور کووڈ-19 کے عالمی ردعمل تک جڑے مسائل پر شراکت داروں کے ساتھ امریکی خارجہ پالیسی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے پوری دنیا کا سفر کر چکی ہیں۔
وینڈی شرمین نائب وزیر خارجہ ہیں۔ لنڈا تھامس-گرین فیلڈ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر ہیں اور سمنتھا پاور امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کی سربراہ ہیں۔
محکمہ خارجہ اور یو ایس ایڈ میں بھی خواتین رہنما ایک ریکارڈ تعداد میں امریکی خارجہ پالیسی کو فروغ دے رہی ہیں۔

یہ واشنگٹن میں اعلٰی عہدوں پر کام کرنے والی اُن متاثر کن اور باصلاحیت خواتین کی ایک طویل فہرست ہے جو درحقیقت تمام محکموں میں مختلف شعبوں کو چلا رہی ہیں۔ ملک سے باہر بھی خواتین سفیروں نے اپنی شناخت بنائی ہے۔ وہ 40 سے زائد ممالک میں امریکی سفارت خانے اور دو طرفہ تعلقات چلا رہی ہیں۔
مجموعی طور پر وہ شاندار مہارت اور تجربہ رکھتی ہیں۔ اور وہ ایک زیادہ متنوع اور جامع سفارتی افرادی قوت میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ یہ افرادی قوت ویسی ہی دکھتی ہے جیسا کہ امریکہ جیسا نظر آتا ہے۔
جیسا کہ بلنکن نے زور دے کر کہا ہے، “تنوع اور شمولیت ہماری سفارتی ٹیم کو زیادہ مضبوط، ہوشیار، زیادہ تخلیقی، زیادہ اختراعی بناتی ہے۔”
