
بہت سے تارکینِ وطن ایسے مقامات پر بسنا پسند کرتے ہیں جہاں کے مناظر اور آب و ہوا ان کے آبائی ملکوں سے ملتے جلتے ہوں۔ لہٰذا ایک صدی سے بھی پہلے، جب جنوبی ایشیا کے زرخیز علاقے پنجاب کے لوگ امریکہ آنا شروع ہوئے، تو قدرتی طور پر ان میں سے بیشتر نے شمالی کیلی فورنیا کی سیکرامینٹو کی مرکزی وادی کو اپنا مسکن بنایا۔ اس وادی کی زرخیز زرعی زمین اور دریائی نظام سے انہیں اُس سرزمین کی یاد آتی تھی جو وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جو پنجابی تارکینِ وطن اپنی قسمت آزمانے امریکہ آئے اُن میں اکثریت مسلمانوں اور سکھوں کی تھی۔ شروع میں آنے والے تارکینِ وطن نے ریلوے میں تعمیراتی کارکنوں یا کھیتوں میں مزدورں کی حیثیت سے کام کیا۔ فصلیں بونا، اگانا اور ان کی کٹائی کرنا، پنجاب کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے اِن پنجابیوں کی فطرت میں شامل ہے۔

1912ء میں اسٹاکٹن، کیلی فورنیا میں قائم ہونے والا پہلا سکھ گوردوارہ ایک سماجی مرکز بن گیا جہاں سے تارکینِ وطن کو کیلی فورنیا کی پوری مرکزی وادی میں روزگار کے مواقعوں کا پتہ چلتا رہتا تھا۔
شروع میں آنے والے بہت ہی کم پنجابی تارکینِ وطن اپنے اہل خانہ کو اپنے ساتھ لائے، اور کچھ پنجابی مردوں نے مقامی طور پر شادیاں کر لیں جن میں سے اکثریت نے میکسیکو سے تعلق رکھنے والی عورتوں سے شادیاں کیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ، جب امریکہ میں امیگریشن کے قوانین تبدیل ہوئے، تو پنجابی گھرانوں کی روز افزوں تعداد سیکرامینٹو وادی میں آباد ہوتی چلی گئی۔
مشترکہ ثقافتیں
آج سَٹر کاؤنٹی اور یوبا کاؤنٹی میں رہائش پذیر تقریباً 10,000 لوگ یا تو پنجابی تارکینِ وطن ہیں یا ان کی اولادیں ہیں۔ بیشتر لوگوں نے زمین سے اپنا رشتہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ پنجابی امریکیوں کا شمار کیلی فورنیا کے کامیاب ترین کاشتکاروں میں ہوتا ہے۔
دوسری اور تیسری نسل کے پنجابی امریکیوں اور نئے آنے والوں میں اب ڈاکٹر، داندان ساز، وکیل، ماہرینِ تعلیم، تاجر، انجنیئر، بنکر اور سرکاری شعبے کے کارکن شامل ہیں۔
یوبا سٹی یا قریب ہی واقع میریز وِل میں کوئی “چھوٹا بھارت” یا “چھوٹا پاکستان” نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسی جگہ ہے جہاں مخصوص نسل کے لوگوں کے ریستورانوں اور دکانوں کا جمگھٹا ہو۔ پنجابی ایک عرصہ ہوا، مقامی کمیونٹی میں رچ بس گئے ہیں، اور وہ بہت سے مختلف نسلی اور سماجی پس منظروں کے حامل امریکیوں کے ساتھ گُھل مِل گئے ہیں۔ اِس کا تعلق کسی ایسے عمل سے نہیں ہے جس میں مختلف ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتی ہیں بلکہ اِس کا تعلق اپنی انفرادیت بر قرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے ثقافتوں میں شریک کرنے سے ہے۔

یوبا سٹی کے بحال شدہ مرکزی حصے کے وال مارٹ یا سٹار بکس میں یا پلومس سٹریٹ میں آپ کو عموماَ لمبی داڑھیوں اور مخصوص پگڑیوں — جو مذہبی احکامات پر کاربند سکھوں کی روایت ہے — والے سکھ نظر آئَیں گے۔ اسی طرح پنجابی شلوار قمیض یا ساڑھیوں میں ملبوس عورتیں بھی عام نظر آتی ہیں۔
غیر ملکی زبان سیکھنے کی شرائط پوری کرنے کے لیے، مقامی ثانوی سکولوں میں طالبعلم پنجابی، فرانسیسی یا ہسپانوی زبانوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ مقامی کیبل ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر پنجابی زبان میں پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ علاقے میں پانچ گوردوارے ہیں جن میں سے ایک تیارا بوئنا روڈ پر واقع ہے جس کا ایک گنبد ہے۔ غیر سکھ لوگوں کو (گوردواروں میں) ہمیشہ خوش آمدید کہا جاتا ہے، اور سب آنے والوں کو ہر روز مفت کھانا پیش کیا جاتا ہے، جسے لنگر کہتے ہیں۔

1980ء سے، نومبر کے مہینے کے پہلے اتوار کو تیارا بوئنا سکھ گوردوارے میں گرو گرنتھ صاحب کی — جو ایک خدا کو ماننے والے اِس 500 سالہ قدیم مذہب کی مقدس کتاب ہے— سالگرہ منائی جاتی ہے۔ اس موقعے پر سالانہ پریڈ ہوتی ہے جسے دیکھنے کے لیے 50,000 سے 80,000تک شرکاء اور تماشائی آتے ہیں۔ سکھ روایت کی مناسبت سے، گوردوارے میں سب کی تواضع کی جاتی ہے۔
ہر سال مئی کے آخری اتوار کومنائے جانے والے پنجابی امریکی میلے کا اہتمام پنجابی امریکی وِرثے کی سوسائٹی کرتی ہے۔ یہ سوسائٹی 1993ء میں کمیونٹی میں مختلف ثقافتوں کے مابین مفاہمت کی حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر قائم کی گئی تھی۔ یہ میلہ پنجابی کھانوں، فلم، موسیقی اور رقص کا ایک غیر مذہبی جشن ہوتا ہے۔
سکھوں کی اقدار امریکی اقدار ہیں
ڈاکٹر جسبیر کانگ شکاگو کے کُک کاؤںٹی ہسپتال میں اپنی میڈیکل ریزیڈینسی مکمل کرنے کے بعد، 1991ء میں یوبا سٹی آ گئے۔ ایک انتہائی معزز ڈاکٹر اور کمیونٹی کے ایک قابلِ احترام رکن کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے نئے وطن کے آدرشوں اور ثقافتی ورثے کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ سکھ مذہب اور طرزِ زندگی کو بہتر طور سے سمجھنے میں دوسروں کی مدد کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔
کانگ وضاحت کرتے ہیں، “سکھوں کی اقدار امریکہ کی اقدارجیسی ہیں؛ انصاف اور برابری کے تصورات ہماری مقدس کتاب میں ہر جگہ موجود ہیں۔”
ان کی اور ان کی بیوی سُکھ جیت کی خواہش ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ان کے تینوں بچوں کو کثیرالثقافتی تجربات حاصل ہوں۔ کانگ اور کمیونٹی کے دوسرے ہم خیال لیڈروں نے پنجابی امریکی ورثے کی سوسائٹی قائم کی تاکہ دوسرے امریکیوں کو پنجابی کلچر سے روشناس کرایا جا سکے۔
کانگ کا شمار سالانہ پنجابی امریکی میلے کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی عوامی رابطوں کی دوسری کوششوں میں لکھنا، عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا، اور تعلیمی وڈیوز تیار کرنا شامل ہیں۔
11 ستمبر، 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، انھوں نے Mistaken Identity: Discovering Sikhs نامی 2004ء میں بننے والی ایک دستاویزی فلم کے مشیر کے طور پر کام کیا۔ اس فلم میں امریکی سکھوں کے ورثے اور ان کی مخصوص شکل و شباہت کی وضاحت کی گئی ہے۔ کانگ اور ان کے بھائی جسجیت 1993ء سے ایک ہفتے وار مقامی ٹیلیویژن پروگرام،” اپنا پنجاب” پیش کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں پنجابی اور انگریزی میں نمایاں شخصیات کے انٹر ویو پیش کیے جاتے ہیں۔
فلاحی تنظیم Fremont-Rideout Foundation نے ذیابیطس کی تعلیم اور اس سے بچاؤ کے سلسلے میں کانگ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں 2010ء کے بہترین ڈاکٹر کا اعزاز دیا۔ ڈاکٹر کانگ نے کمیونٹی میں اپنے کام کو پنجابی امریکی کمیونٹی سے بہت آگے تک پھیلا دیا ہے جس کے اعتراف میں سیکرامینٹو میں قائم پبلک ٹیلیویژن سٹیشن کے وی آئی ای نے، انہیں 2006ء میں “مقامی ہیرو” کے اعزاز سے نوازا۔
ڈاکٹر کانگ کہتے ہیں کہ امریکہ ان کے لیے صرف مادی کامیابی کے امکان کی وجہ سے ہی پُر کشش نہیں تھا بلکہ اس لیے بھی پُرکشش تھا کہ ابراہم لنکن اور جان ایف کینیڈی ان کے ہیرو تھے۔ امریکہ ان کی توقعات سے کہیں بڑھکر تھا: “مجھے یہاں انصاف اور معقولیت ملی۔ میں نے یہاں انسانی وقار دیکھا۔ مجھے یہاں رواداری اور محبت ملی۔ میں نے جذبے کی فیاضی دیکھی ۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سخت محنت کا صلہ ملتا ہے۔”
کمیونٹی سے ملنے والے فوائد کو واپس لوٹانا
کِرن جوہل بلیک کے قرینے سے ترتیب دیے ہوئے دفتر میں یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور بحر الکاہل کے اردگرد کے علاقوں ( پیسیفک رِم) سمیت، پوری دنیا کی منڈیوں میں بھیجے جانے والے اخروٹوں کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ بلیک امدادِ باہمی کی بنیاد پر کام کرنے والی سیکرا منٹو کی وادی میں اخروٹ اُگانے والوں کی تنظیم میں، مارکٹنگ منیجر ہیں۔ یہ تنظیم اخروٹوں کو صاف سُتھرا کرتی ہے اور فروخت کرتی ہے اور اِس کے مالکان مقامی کاشتکار ہیں جن میں کِرن کے والد بھی شامل ہیں۔

اِس سے قبل وہ کیلی فورنیا فارم بیورو فیڈریشن میں سیاسی امور کی مینیجر تھیں۔ اسی ادارے کے قومی امور اور تحقیقی ڈویژن کی ایک ڈائریکٹر کی حیثیت سے، وہ سیکرامینٹو اور واشنگٹن میں لابنگ کا کام کر چکی ہیں۔ زراعت کے خاندانی پیشے میں آنے والی یہ ایک نسلی تبدیلی ہے۔ بلیک اور ان کی دو چھوٹی بہنیں ایک خاندانی فارم پر پلی بڑھیں جو ان کے دادا نے 1960ء کی دہائی میں شروع کیا تھا۔ آج کل تین کاؤںٹیوں میں اس فارم پر آڑو، آلوچے اور اخروٹ کی کاشت ہوتی ہے۔
ان کے والد، سرب جوہل نے انجنیئرنگ اور الیکٹرانکس میں ڈگری حاصل کی لیکن انہوں نے اپنی تعلیم کو کاروبار کو وسعت دینے اور اسے متنوع بنانے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے اور کِرن کی سکول ٹیچر والدہ پربھجوت نے ہمیشہ نمایاں تعلیمی کارکردگی، قیادت اور کمیونٹی کی خدمت پر زور دیا۔ وہ دونوں چاہتے تھے کہ بلیک ڈاکٹر بنیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ڈیوس میں انھوں نے اپنی پری میڈیکل تعلیم شروع کی، لیکن اپنے والد کی طرح، چیزیں اُگانا اور “اپنے ہاتھوں میں مٹی کو محسوس کرنا” انہیں کہیں زیادہ اچھا لگا۔ انھوں نے اپنا مضمون تبدیل کر لیا اور فصلوں کی سائنس اور ان کے انتظام کا مطالعہ کرنے لگیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے اپنے والد کو اس تبدیلی کے بارے میں بتانے سے پہلے تھوڑے دن انتظار کیا، لیکن آپ کو کرنا وہی چاہیے جو آپ کو پسند ہو۔”
امریکہ میں پیدا ہونے والی اور ایک ایسے غیر پنجابی سے شادی کرنے والی — جس نے خاندانی کاروبار میں شمولیت اختیار کر لی ہے — بلیک حقیقی طور پر دو ثقافتوں کی امین ہیں اور بتاتی ہیں کہ ان کی ان دو دنیاؤں میں کون سی اہم باتیں مشترک ہیں۔
وہ کہتی ہیں، “ثقافت کھانے، لباس اور میوزک سے کہیں بڑھکر ہے اور نسلی تشخص سے تو یہ یقیناً بڑھکر ہے۔ یہ اہم اقدار: یعنی کام کرنے کا ایک مضبوط ضابطہ اخلاق، مسلسل سیکھنے، خود کو بہتر بنانے، کمیونٹی کو واپس لوٹانے کو، آگے پہنچانا ہے ۔”